پانچ سالوں سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارنے کےبعد مالے گاؤں بم دھماکوں کے نو میں سے سات مسلمان ملزمین بدھ کے روز جیل سے رہا ہوگئے۔ اُنھیں 2006ء میں مالے گاؤں میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا جِن میں 37 افراد ہلاک اور100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
تاہم، دو ملزمین کی رہائی اِس لیے نہیں ہوسکی کہ اُنھیں اُسی سال ممبئی میں ہونے والے ٹرین دھماکوں میں بھی ملزم بنایا گیا تھا۔
اِن نوجوانوں کی رہائی کے لیے مالے گاؤں کےمسلمان 202دِنوں سے سلسلے وار بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے تھے۔
گذشتہ دِنوں قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے فیصلے کے بعد کہ وہ اُن کی ضمانت کی مخالفت نہیں کرے گی، ممبئی کی ایک خصوصی عدالت نے ضمانت منظور کر لی تھی۔ تاہم، دستاویزات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اُنھیں رہا نہیں کیا گیا تھا۔
مہاراشٹر کے انسدادِ دہشت گردی کےدستے نے فردِ جرم میں اُنھیں دھماکوں کا ذمہ دار اور ممنوعہ تنظیم کے کارکن ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن، ہندو احیا پسند کارکن سوامی ائیسامانند کے اس اعتراف کے بعد کہ مالے گاؤں بم دھماکوں میں ہندو تنظیموں کے کارکن ملؤث رہے ہیں، سی بی آئی نے این آئی اے کو سونپی گئی اپنی رپورٹ میں کہا کہ مسلم ملزمین بے قصور ہیں اور اب صرف ہندو کارکنوں سے پوچھ گچھ کی جائے۔
رہا ہونے والے مسلم نوجوانوں کے اہلِ خانہ اور متعدد تنظیموں کی جانب سے اُن کی رہائی کا مسلسل مطالبہ کیا جاتا رہاہے۔ اب جب کہ اُنھیں رہا کردیا گیا ہے، اُن کے گھر والوں نے امید جتائی ہے کہ دیگر بے قصوروں کو بھی رہا کیا جائے گا۔اِس معاملے میں کئی ہندو کارکنوں کو پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا ہے۔