استنبول —
ترکی کی وزارتِ خارجہ نے مالی میں فرانس کی فوجی کارروائی پر تنقید کی ہے۔ یہ کھلے عام تنقید اس پس منظر میں کی گئی ہے کہ ترکی مغربی افریقہ میں اپنا اقتصادی اور سفارتی اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
مالی میں اسلام پسندوں کی بغاوت کے خلاف فرانسیسی فوجوں کی کارروائی کے بارے میں ترکی اپنی تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔
مارچ میں مالی کے دارالحکومت باماکو میں فوجی بغاوت کے بعد شمالی مالی باغیوں کے زیر تسلط آ گیا۔ اس کے نتیجے میں بربر نسل کے لوگوں نے ملک کے شمالی حصے پر قبضہ کر لیا اور مغربی افریقہ کے اس ملک کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔
ترکی کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سیلوک انل کو اس کارروائی کے وقت پر اعتراض ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس کارروائی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔
‘‘ہم مالی کی صورتِ حال میں ایسی تبدیلی چاہتے ہیں جو وہاں کے لوگوں کی سیاسی خواہشات کے دائرے میں ہو جیسے وہاں جمہوری انتخابات ہوں اور آزاد پارلیمینٹ قائم ہو۔ ان معنوں میں اس سے پہلے کہ وہاں سیاسی طریقے یا دوسرے راستے آزمائے جائیں ہم کسی یکطرفہ اقدام کے حق میں نہیں ہیں۔’’
ترکی کی وزارتِ خارجہ نے اس طرف توجہ دلائی کہ مالی کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد میں صرف ایسی کارروائی کی منظوری دی گئی تھی جو افریقیوں کی قیادت میں کی جائے۔
ترک روزنامے طراف کے سفارتی کالم نگار صمیح آئیڈز کہتے ہیں کہ فرانس کی فوجی کارروائی کے بارے میں ترکی کے ملے جلے جذبات اس رقابت کا حصہ ہیں جو مغربی افریقہ کے بارے میں انقرہ اور پیرس کے درمیان موجود ہے۔
‘‘میں سمجھتا ہوں کہ اس سے ترکی اور فرانس کے درمیان مسابقت کی عکاسی ہوتی ہے ۔ مالی کے بارے میں خبر آنے سے چند روز پہلے وزیرِ اعظم اردوان نیجر میں تھے جہاں انھوں نے سابق نوآبادیاتی طاقت فرانس پر سخت تنقید کی اور یہ کہنے کی کوشش کی کہ ترکی کا رویہ فرانس جیسا نہیں ہو گا۔ افریقہ میں اپنے قدم جمانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور ترکی اس میں پیش پیش ہے ۔ اس نے پورے افریقہ میں بہت سے سفارت خانے کھولے ہیں۔ لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ ترکی خود کو ایک موئثر طاقت سمجھتا ہے۔’’
گذشتہ چند برسوں میں ترکی نے افریقہ میں 31 سفارت خانے کھولے ہیں۔ اس نے مالی میں بھی 2010 میں اپنا سفارت خانہ کھولا تھا۔
ترکی کی حکومت نے افریقہ کو اپنی اقتصادی ترجیح قرار دیا ہے۔ 2003 میں اپنی پالیسی کے آغاز کے بعد سے اب تک اس نے برِ اعظم افریقہ کو اپنی بر آمدات کی مالیت دس ارب ڈالر سے زیادہ کر لی ہے۔ اور اس مہینے کے شروع میں ترک وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان گبون، نیجر، اور سینیگال کے دورے پر گئے تھے ۔ اس سے پہلے وہ ایتھیوپیا، سوڈان، اور صومالیہ گئے تھے اور انھوں نے افریقہ میں ترکی کی دلچسپی کے بارے میں جنوبی افریقہ میں مذاکرات کیے تھے۔
ترکی کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان انل کہتے ہیں کہ مالی کی صورتِ حال کے بارے میں وہ اپنی تشویش کا اظہاراسلامی کانفرنس کی تنظیم ، ‘او آئی سی’کی معرفت کریں گے۔
‘‘مالی کے بارے میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم جو ممکنہ اقدامات کر سکتی ہے ہم نے ان پر بات چیت کی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم کی اگلی سربراہ کانفرنس میں جو قاہرہ میں ہوگی، مالی کا مسئلہ ایجنڈے میں شامل ہو گا۔’’
مبصرین کا کہنا ہے کہ چونکہ مالی کے ہمسایہ ممالک فرانس کی فوجی کارروائی کی حمایت کر رہےہیں، اس لیے ترکی کو مغربی افریقہ کے ملکوں کی طرف سے زیادہ حمایت نہیں ملے گی۔
لیکن سفارتی کالم نگار آئیڈز کہتے ہیں کہ فروری میں ہونے والی اسلامی کانفرنس کی تنظیم کی سربراہ کانفرنس میں ترکی کو عرب ملکوں کی حمایت ملنے کا امکان ہے۔
‘‘اس پورے معاملے کا ایک اسلامی پہلو ہے اور اس لیے ترکی کی نا پسندیدگی شاید بعض عرب ملکوں کے احساسات سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ مالی میں رہنے والوں کی بھاری اکثریت مسلمان ہے اور وہاں مغربی ملکوں کی طرف سے کارروائی ہو رہی ہے ۔ اسلامی دنیا میں مغربی ملکوں کی مداخلت کے بارے میں نا گواری کا احساس موجود ہے اور یہ اس مسئلے کا ایک پہلو ہے۔’’
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فرانس کی کارروائی کے بارے میں انقرہ کی نا پسندیدگی پر ترکی کے مغربی اتحادی جو سب اس کارروائی کی حمایت کر رہےہیں ، ناک چڑھا سکتے ہیں۔ لیکن ترکی کی حکومت کی حامی میڈیا میں بار بار یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر یہ اتحادی ملک اسلام پسندوں کی بغاوت کے خلاف مالی میں کارروائی کر سکتے ہیں، تو پھر شام میں ایسی ہی کارروائی کرنے میں کیا چیز مانع ہے۔
مالی میں اسلام پسندوں کی بغاوت کے خلاف فرانسیسی فوجوں کی کارروائی کے بارے میں ترکی اپنی تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔
مارچ میں مالی کے دارالحکومت باماکو میں فوجی بغاوت کے بعد شمالی مالی باغیوں کے زیر تسلط آ گیا۔ اس کے نتیجے میں بربر نسل کے لوگوں نے ملک کے شمالی حصے پر قبضہ کر لیا اور مغربی افریقہ کے اس ملک کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔
ترکی کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سیلوک انل کو اس کارروائی کے وقت پر اعتراض ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس کارروائی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔
‘‘ہم مالی کی صورتِ حال میں ایسی تبدیلی چاہتے ہیں جو وہاں کے لوگوں کی سیاسی خواہشات کے دائرے میں ہو جیسے وہاں جمہوری انتخابات ہوں اور آزاد پارلیمینٹ قائم ہو۔ ان معنوں میں اس سے پہلے کہ وہاں سیاسی طریقے یا دوسرے راستے آزمائے جائیں ہم کسی یکطرفہ اقدام کے حق میں نہیں ہیں۔’’
ترکی کی وزارتِ خارجہ نے اس طرف توجہ دلائی کہ مالی کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد میں صرف ایسی کارروائی کی منظوری دی گئی تھی جو افریقیوں کی قیادت میں کی جائے۔
ترک روزنامے طراف کے سفارتی کالم نگار صمیح آئیڈز کہتے ہیں کہ فرانس کی فوجی کارروائی کے بارے میں ترکی کے ملے جلے جذبات اس رقابت کا حصہ ہیں جو مغربی افریقہ کے بارے میں انقرہ اور پیرس کے درمیان موجود ہے۔
‘‘میں سمجھتا ہوں کہ اس سے ترکی اور فرانس کے درمیان مسابقت کی عکاسی ہوتی ہے ۔ مالی کے بارے میں خبر آنے سے چند روز پہلے وزیرِ اعظم اردوان نیجر میں تھے جہاں انھوں نے سابق نوآبادیاتی طاقت فرانس پر سخت تنقید کی اور یہ کہنے کی کوشش کی کہ ترکی کا رویہ فرانس جیسا نہیں ہو گا۔ افریقہ میں اپنے قدم جمانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور ترکی اس میں پیش پیش ہے ۔ اس نے پورے افریقہ میں بہت سے سفارت خانے کھولے ہیں۔ لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ ترکی خود کو ایک موئثر طاقت سمجھتا ہے۔’’
گذشتہ چند برسوں میں ترکی نے افریقہ میں 31 سفارت خانے کھولے ہیں۔ اس نے مالی میں بھی 2010 میں اپنا سفارت خانہ کھولا تھا۔
ترکی کی حکومت نے افریقہ کو اپنی اقتصادی ترجیح قرار دیا ہے۔ 2003 میں اپنی پالیسی کے آغاز کے بعد سے اب تک اس نے برِ اعظم افریقہ کو اپنی بر آمدات کی مالیت دس ارب ڈالر سے زیادہ کر لی ہے۔ اور اس مہینے کے شروع میں ترک وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان گبون، نیجر، اور سینیگال کے دورے پر گئے تھے ۔ اس سے پہلے وہ ایتھیوپیا، سوڈان، اور صومالیہ گئے تھے اور انھوں نے افریقہ میں ترکی کی دلچسپی کے بارے میں جنوبی افریقہ میں مذاکرات کیے تھے۔
ترکی کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان انل کہتے ہیں کہ مالی کی صورتِ حال کے بارے میں وہ اپنی تشویش کا اظہاراسلامی کانفرنس کی تنظیم ، ‘او آئی سی’کی معرفت کریں گے۔
‘‘مالی کے بارے میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم جو ممکنہ اقدامات کر سکتی ہے ہم نے ان پر بات چیت کی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم کی اگلی سربراہ کانفرنس میں جو قاہرہ میں ہوگی، مالی کا مسئلہ ایجنڈے میں شامل ہو گا۔’’
مبصرین کا کہنا ہے کہ چونکہ مالی کے ہمسایہ ممالک فرانس کی فوجی کارروائی کی حمایت کر رہےہیں، اس لیے ترکی کو مغربی افریقہ کے ملکوں کی طرف سے زیادہ حمایت نہیں ملے گی۔
لیکن سفارتی کالم نگار آئیڈز کہتے ہیں کہ فروری میں ہونے والی اسلامی کانفرنس کی تنظیم کی سربراہ کانفرنس میں ترکی کو عرب ملکوں کی حمایت ملنے کا امکان ہے۔
‘‘اس پورے معاملے کا ایک اسلامی پہلو ہے اور اس لیے ترکی کی نا پسندیدگی شاید بعض عرب ملکوں کے احساسات سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ مالی میں رہنے والوں کی بھاری اکثریت مسلمان ہے اور وہاں مغربی ملکوں کی طرف سے کارروائی ہو رہی ہے ۔ اسلامی دنیا میں مغربی ملکوں کی مداخلت کے بارے میں نا گواری کا احساس موجود ہے اور یہ اس مسئلے کا ایک پہلو ہے۔’’
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فرانس کی کارروائی کے بارے میں انقرہ کی نا پسندیدگی پر ترکی کے مغربی اتحادی جو سب اس کارروائی کی حمایت کر رہےہیں ، ناک چڑھا سکتے ہیں۔ لیکن ترکی کی حکومت کی حامی میڈیا میں بار بار یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر یہ اتحادی ملک اسلام پسندوں کی بغاوت کے خلاف مالی میں کارروائی کر سکتے ہیں، تو پھر شام میں ایسی ہی کارروائی کرنے میں کیا چیز مانع ہے۔