پینتالیس برس قبل، خلانورد نیل آرم سٹرانگ وہ پہلے انسان تھے جنھوں نے چاند پر قدم رکھا۔ اُن کے لفظ تھے: ’انسان کا یہ ایک چھوٹا سا قدم انسانیت کے لیے ایک بہت بڑی پیش رفت کی مانند ہے‘۔
اس تاریخ ساز لمحے سے محض ہی آٹھ سال قبل، امریکی صدر آنجہانی جان ایف کینیڈی نے چاند کو تسخیر کرنے کے ہدف کا اعلان کیا تھا۔
پچیس مئی 1961ء کو کانگریس سے خطاب میں، جسے ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا، اُنھوں نے کہا کہ میرے خیال میں، ہماری قوم کو یہ ہدف حاصل کرنے کا عزم کرنا ہوگا، اس سے پہلے کہ یہ عشرہ بیت جائے۔ اور یہ ہدف ہے چاند پر انسان کے قدم رکھنے کا اور بحفاظت زمین پر واپس پہنچنے کا۔
اُس وقت چاند پر جانا بعید امکان خواب سا لگتا تھا، جتنا کہ چاند خود دور ہے؛ کیونکہ ایک ماہ سے کم عرصہ قبل ہی ایلن شیفرڈ پہلا امریکی شخص تھا جو خلا میں پہنچا تھا۔
سنہ 1962 میں جا کر کہیں جان گلین زمین کے مدار میں چکر لگانے والا پہلا امریکی بنا۔
اگلے سات سالوں تک، خلا سے متعلق امریکی ادارے (ناسا) سابق سوویت یونین کے ساتھ مبینہ خلائی دوڑ میں شامل ہوا، یہ دیکھنے کے لیے کہ کونسا سپر پاور چاند پر پہلے پہنچتا ہے۔
ناسا کی جستجو خلا میں متعدد مشن روانہ کرنا رہ گیا تھا، جن میں سے ہر ایک پیچیدہ تر تھا، ہر ایک کا مقصد چھوٹے ابتدائی کام کرنا تھا، تاکہ ایک دِن چاند پر قدم رکھنا ممکن ہو۔
اکیس جولائی 1969ء کو آرم سٹرانگ اور ساتھی خلانورد ایڈون ’بَز‘ آلڈرن نے ایگل نامی خلائی گاڑی کو چاند کی سطح پر لے گئے۔ کچھ ہی گھنٹے بعد، آرم سٹرانگ گاڑی سے باہر نکلے اور چاند پر تاریخی قدم رکھا۔ ایک اندازے کے مطابق، دنیا بھر کے نصف ارب لوگوں نے اِن لمحات کو ٹیلی ویژن پر دیکھا۔
فقید المثال صحافی، والٹر کرونکائٹ، جو خلائی دور کے کوریج کے باعث خود تاریخ ساز بن چکا تھا، اُنھیں یہ منظر بے ازحد پسند آیا۔ اُن کے مشہور کلمات تھے، اِسے ہوتے ہوئے دیکھ کر، یہ جانتے ہوئے کہ یہ ہوا ہے، یہ بات ایک خواب سے کم نہیں لگتی۔
آرم سٹرانگ اور آلڈرن نے ڈھائی گھنٹے چاند کی سطح پر گزارے، جہاں اُنھوں نے نمونے اکٹھے کیے اور تجربات کیے۔
اُنھوں نے ایک امریکی پرچم اور ایک پلیک وہاں چھوڑا، جس پر تحریر تھا: ’یہاں کرہٴ زمین کے پہلے شخص نے چاند پر اپنا قدم رکھا۔ جولائی 1969 اے ڈی۔ ہم سارے بنی نوع انسان کے امن کا پیغام لائے ہیں۔‘
اس کے بعد، ناسا نے پانچ بار انسانی مشن چاند پر روانہ کیا، جن میں سے آخری مشن 1972ء کا تھا۔