افغانستان کے شہر جلال آباد میں ایک جیل پر داعش کے شدت پسندوں کے حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان لڑائی 20 گھنٹوں تک جاری رہی۔
رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ کلین اپ آپریشن کی نگرانی کے لیے آرمی چیف آف سٹاف جنرل یاسین ضیا بھی موقع پر پہنچے۔
افغان کی وزارت دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ علاقے کو دہشت گردوں سے مکمل طورپر صاف کر دیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں پانچ حملہ آور جیل کے اندر مارے گئے۔جب کہ تین قیدی حملہ آوروں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے جن میں سے دو طالبان تھے۔
وزارت دفاع کے ترجمان فواد امین نے افغان نیوز چینل طلوع کو بتایا ہے کہ جیل پر افغان سیکیورٹی فورسز کا مکمل کنٹرول ہے۔
حملے کے وقت جیل میں 1700 سے زائد قیدی موجود تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ فرار ہونے کی کوشش کرنے والے 1000 قیدیوں کو دوبارہ پکڑ لیا گیا ہے جب کہ کئی لاپتا ہیں۔
داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ حملے کا آغاز بارود سے بھری ایک گاڑی کو دھماکے سے اڑانے کے ساتھ ہوا جس کے بعد جنگجوؤں نے جیل پر دھاوا بول دیا۔
ننگرہار کے گورنر کے ترجمان عطااللہ خوگانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ حملے میں 29 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ 50 سے زائد زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ ہلاک و زخمی ہونے والے افراد میں قیدی اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔
عطااللہ خوگانی کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے آٹھ حملہ آوروں کو ہلاک کرنے کے بعد 'آپریشن کلین اَپ' شروع کیا۔
اس سے قبل افغان صوبے ننگرہار کی کونسل کے رکن سہراب قادری نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ جلال آباد میں واقع افغان حکومت کی ایک جیل کے باہر اتوار کو پہلے دو کم شدت کے دھماکے ہوئے تھے جس کے بعد ایک کار میں شدید دھماکہ ہوا تھا۔
سہراب قادری کے مطابق دھماکوں کے بعد حملہ آوروں کی سیکیورٹی فورسز سے جھڑپیں ہوئیں۔
حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔ داعش کی نیوز ایجنسی 'اعماق' پر جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا۔ بیان میں حملے کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ داعش کے اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق بھی نہیں ہو سکی ہے۔
ادھر طالبان کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ اس حملے میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔
'اے ایف پی' نے سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جس وقت حملہ ہوا، جیل میں تقریباً 1700 قیدی موجود تھے جن میں سے اکثر طالبان اور داعش کے جنگجو ہیں۔ پولیس نے حملے کے بعد فرار ہونے والے 1025 قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے جب کہ 430 قیدی جیل میں ہی موجود رہے تھے۔
البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ حملے کے دوران کل کتنے قیدی زخمی یا ہلاک ہوئے اور ان میں سے اب تک کتنے مفرور ہیں۔
یہ حملہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب اتوار کو افغان حکومت اور طالبان کی جانب سے عیدالاضحیٰ پر کی گئی تین روزہ جنگ بندی کا آخری دن تھا۔ اس جنگ بندی کے دوران افغان حکومت نے طالبان کے مزید سینکڑوں قیدی رہا کیے ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال فروری میں طے پانے والے امن معاہدے کے تحت افغان حکومت طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرنے کی پابند ہے جب کہ اب تک 4600 طالبان قیدی رہا ہو چکے ہیں۔ طالبان کے مطابق وہ معاہدے کے تحت افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کی رہائی کا وعدہ پورا کر چکے ہیں۔
امن معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہونے کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہونا ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی اور طالبان عندیہ دے چکے ہیں کہ عید الاضحیٰ کے بعد بین الافغان مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہو سکتا ہے۔
طالبان کے 400 قیدیوں کی رہائی کے لیے لویہ جرگہ طلب
افغانستان میں صدارتی دفتر نے تصدیق کی ہے کہ طالبان کے بقیہ 400 قیدیوں کی رہائی سے متعلق فیصلے کے لیے سات اگست بروز جمعہ کو لویہ جرگہ طلب کر لیا گیا ہے۔
صدارتی ترجمان صادق صدیقی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا ہے کہ جرگہ ایجنڈے پر تین سے پانچ روز تک غور کرے گا۔ جرگہ طلب کرنے کا فیصلہ صدر اشرف غنی نے جمعہ کو کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملکی آئین اور جرائم سے متعلق قوانین کے رو سے افغان صدر کو طالبان کے ان 400 قیدیوں کو رہا کرنے کا اختیار نہیں ہے جس کی وجہ سے لویہ جرگہ طلب کیا گیا ہے تاکہ اس حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جا سکے۔
صادق صدیقی کا کہنا تھا کہ ان 400 قیدیوں کے نام افغان حکومت کی بلیک لسٹ میں شامل ہیں اور متعدد ملکوں نے بھی ان کے نام اپنی بلیک لسٹ میں شامل کر رکھے ہیں۔
دریں اثنا افغان حکومت کی جانب سے آج پیر کو مزید 138 طالبان قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت نے انہیں یقین دلایا ہے کہ طالبان کے 4,600 قیدی رہا کرنے کے بعد طالبان کے ساتھ امن بات چیت کا آغاز ہو گا اور جنگ بندی جاری رہے گی۔
ادھر طالبان کے سابق اہلکار سید اکبر نے قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے لویہ جرگہ طلب کرنے کے اقدام کو بے سود قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر قانونی پابندیوں کے باعث صدر غنی کو قیدیوں کو رہا کرنے کا اختیار نہیں تھا تو انہوں نے دیگر قیدیوں کو کیوں رہا کر دیا۔
سید اکبر کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں تین روزہ عارضی جنگ بندی ختم ہو چکی ہے اور طالبان اس میں توسیع پر رضامند نہیں ہوں گے۔ لیکن افغان پارلیمان کے ایک رکن گل رحمان کا کہنا ہے کہ افغانستان کی تاریخ میں جرگے کا کردار اہم رہا ہے اور انہیں امید ہے کہ جرگہ اس بار بھی قومی مفادات سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ دے گا۔
اس بارے میں قانونی ماہر عبد السبحان مصباح کا کہنا ہے کہ طالبان کے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں فیصلے کے لیے لویہ جرگے کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں۔ جرگہ قانونی معاملات پر کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا۔ تاہم قومی افہام و تفہیم کی ہائی کونسل نے امید ظاہر کی ہے کہ لویہ جرگہ امن کی راہ میں رکاوٹیں دور کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔