طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی قید میں موجود افغان سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کو جلد رہا کر دیں گے۔ ایک دن پہلے افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بھی اسی طرح کا اعلان کیا تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہوسکتے ہیں۔
دوحہ میں مقیم طالبان کے ترجمان، سہیل شاہین نے ٹوئیٹر پر بتایا کہ خیر سگالی کے اظہار کے طور پر کابل انتظامیہ کے باقی اہلکاروں کو عید الاضحیٰ سے پہلے رہا کردیا جائے گا جس سے ایک ہزار قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہوجائے گا۔
صدر اشرف غنی نے منگل کو اشارہ دیا تھا کہ بین الافغان مذاکرات جلد منعقد ہوں گے۔ پانچ ہزار طالبان قیدیوں میں سے باقی کی رہائی کا اعلان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام کے بعد وہ ہفتے بھر میں طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی توقع کررہے ہیں۔
دونوں فریق عید الاضحیٰ کے موقع پر تین دن کی جنگ بندی پر بھی رضامندی کرچکے ہیں۔
افغان مصالحت کے لیے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے بدھ کو کابل میں افغان حکام سے ملاقات کی اور تازہ پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا۔
قومی مصالحت کی اعلیٰ کونسل کے چئیرمین عبداللہ عبداللہ نے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ آج شام زلمے خلیل زاد اور کابل میں امریکی سفیر سے ملاقات کی اور عید الاضحیٰ پر تین روزہ باہمی جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کیا۔ ہم نے قیدیوں کے تبادلے کے آخری مرحلے پر توجہ دی جس کے بعد بین الافغان مذاکرات اور مستقل جنگ بندی کی راہ ہموار اور تشدد میں مزید کمی ہوگی۔
صدارتی ترجمان کے مطابق، ملاقات میں صدر اشرف غنی اور سابق صدر حامد کرزئی بھی موجود تھے اور اس میں جنگ بندی کو عید کے بعد بھی جاری رکھنے کے امکان پر گفتگو کی گئی۔
قیدیوں کا تبادلہ نہ ہونے کی وجہ سے بین الافغان مذاکرات کا آغاز مارچ سے التوا کا شکار تھا۔ افغان حکومت ملک میں عسکریت پسندوں کی جانب سے تشدد کم ہونے تک طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کی مزاحمت کررہی تھی۔ طالبان نے اپنے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی تک بات چیت شروع کرنے سے انکار کیا تھا۔
کونسل کے ترجمان فریدوم خوازون نے کہا کہ دونوں فریقوں نے مسائل حل کردیے ہیں۔ انھوں نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ تقریباً طے ہوچکا ہے اور آنے والے دنوں میں مکمل طے کرلیا جائے گا۔ طالبان کے 5 ہزار قیدی اور افغان سیکورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکار رہا کردیے جائیں گے۔
بین الافغان مذاکرات کے مقام کے لیے کئی ملکوں کے ناموں پر غور کیا گیا ہے لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے معاملات پیچیدہ ہوئے ہیں۔ مذاکرات میں طالبان کے سیاسی وفد کے علاوہ مختلف سیاسی دھڑوں کے رہنما، انسانی حقوق کے کارکن، خواتین اور سول سوسائی کے ارکان شریک ہوں گے۔
امکان ہے کہ مذاکرات کا پہلا دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوگا، جہاں طالبان کا ایک سیاسی وفد برسوں سے مقیم ہے اور اس نے زلمے خلیل زاد اور ان کے وفد سے ڈیڑھ سال تک بات چیت کی ہے۔