افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کے مزید 500 قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا ہے۔ اس حکم پر عمل درآمد کے بعد امن معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کا عمل مکمل ہو جائے گا۔
جمعے کو صدر غنی کا یہ حکم ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب طالبان اور افغان حکومت نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر تین روز کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
تاہم جنگ بندی سے چند گھنٹے قبل افغان صوبے لوگر کے شہر پلِ عالم میں جمعرات کی شب ایک خودکش حملے کے نتیجے میں 17 افراد ہلاک اور 21 زخمی ہو گئے ہیں۔
جمعے کو عید کے موقع پر اپنے خظاب میں صدر غنی نے کہا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی عید کی چھٹیوں کے دوران ہی عمل میں لائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی سے حکومت کا پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کا وعدہ پورا ہو جائے گا جس کے لیے طالبان نے امریکہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
صدر غنی کا اپنے خطاب میں مزید کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے عید پر جنگ بندی کے اعلان کے جواب میں 500 قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ قیدیوں کو جذبہ خیر سگالی کے تحت چھوڑا جا رہا ہے تاکہ امن مذاکرات کی رفتار کو تیز کیا جائے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں برس فروری میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا۔ جس کے تحت افغان حکومت طالبان کے پانچ ہزار اور طالبان افغان سیکیورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کرنے کے پابند تھے۔
طالبان قیدیوں کے تبادلے کا عمل مکمل کر چکے ہیں جب کہ افغان حکومت بھی 4600 قیدیوں کو رہا کر چکی ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق افغان حکومت جن 500 قیدیوں کو رہا کرنے والی ہے یہ وہ نہیں جن کا مطالبہ طالبان نے اپنے پانچ ہزار قیدیوں کی فہرست میں کیا تھا۔
کابل انتظامیہ طالبان کے دیگر 400 قیدیوں کو رہا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ افغان حکومت کا مؤقف ہے کہ طالبان کے بقایا قیدی انتہائی خطرناک ہیں۔
صدر غنی نے ان قیدیوں سے متعلق کہا کہ اُنہیں حق حاصل نہیں ہے کہ طالبان کے اُن 400 قیدیوں کی رہائی کا حکم دیں جو سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔ اُن کے بقول افغان عمائدین کا جرگہ ہی ان قیدیوں کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔
طالبان اپنے 400 قیدیوں کی رہائی پر زور دیتے رہے ہیں۔ تاہم فوری طور پر اُن کی جانب سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
قیدیوں کے تبادلے کا عمل مکمل ہونے کے بعد افغان حکومت، عمائدین اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات شروع ہونا ہیں۔
جنگ بندی سے قبل خودکش حملہ
افغان حکومت اور طالبان نے رواں ہفتے بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے عیدالاضحیٰ کے موقع پر تین روز کے لیے جنگی بندی کا اعلان کیا تھا۔
جنگ بندی کے اعلان پر عمل درآمد سے قبل جمعرات کی شب افغان صوبے لوگر کے شہر پلِ عالم میں خود کش حملے کے نتیجے میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
پلِ عالم کے اسپتال کے سینئر ڈاکٹر صدیق اللہ کے مطابق اسپتال میں 17 لاشوں اور 21 زخمیوں کو لایا گیا ہے۔
لوگر صوبے کے گورنر کے ترجمان دیدار لاونگ کے مطابق یہ خودکش حملہ تھا جس میں بمبار نے بارود سے بھری گاڑی مجمع میں اُس وقت دھماکے سے اڑا دی جب لوگ عید کی خریداری میں مصروف تھے۔
افغان وزارتِ داخلہ نے دھماکے کی مذمت کی ہے۔ ترجمان وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر عیدالاضحیٰ کی شب حملہ کر کے ہمارے متعدد افراد کی جان لی ہے۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے میں ان کے جنگجوؤں کا کوئی کردار نہیں ہے۔
افغانستان میں حالیہ کچھ عرصے میں اس طرح کے حملوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش قبول کرتی آئی ہے۔ تاہم لوگر میں ہونے والے خود کش حملے کی اب تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔