ہیومن رائٹس کمیشن کی موسیٰ خیل میں شہریوں کے قتل کی مذمت
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل میں شہریوں کے قتل کی مذمت کی ہے۔
جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایچ آر سی بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل میں شہریوں پر ہونے والے سفاکانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہے جس میں عسکریت پسندوں نے کم از کم 23 مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر ان کے شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد انہیں فائرنگ کرکے قتل کیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ قلات اور بولان میں مسلح افراد کے متوازی حملوں میں بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔یہ حملے حالیہ برسوں میں صوبے میں عسکریت پسندوں کے تشدد کے بدترین واقعات میں سے ایک ہیں۔
ہیومن رائٹس نے واقعے کے ذمے داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسائل حل کرنے میں تشدد اور غیر مسلح افراد کو نشانہ بنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایچ آر سی پی کو صوبے میں منظم باغیوں کی جانب سے تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر سخت تشویش ہے تاہم ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ریاست کو بلوچستان میں رہنے والے معصوم شہریوں کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کرنی چاہیے۔
حالیہ حملوں پر بلوچستان کے شہری کیا کہتے ہیں؟
بعض مقامات پر اب بھی دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ جاری ہے: وزیرِ اعلٰی بلوچستان
وزیرِ اعلٰی بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں سے کچھ مقامات پر اب بھی مقابلہ جاری ہے۔ دہشت گردوں سے ان کارروائیوں کا پورا بدلہ لیں گے۔
کوئٹہ میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِ اعلٰی بلوچستان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد سافٹ ٹارگٹ ڈھونڈتے ہیں، نہتے مزدوروں کو مار کر ہیرو بنتے ہیں۔ ریاست اپنی رٹ قائم کرے گے اور اس کے لیے ہر طریقہ استعمال کیا جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ کسی بلوچی نے پنجابی کو نہیں بلکہ دہشت گرد نے پاکستانی کو مارا ہے۔ یہ ریاست کی لڑائی ہے جسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
وزیرِ اعلٰی بلوچستان کا کہنا تھا کہ جو سرنڈر کرنا چاہتا ہے، مذاکرات کرنا چاہتا ہے، ہمارے دروازے کھلے ہیں لیکن آبادی سے راکٹ برسائے جائیں گے تو پھر ایف سی کیا کرے گی۔
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ امریکہ کے افغانستان سے جانے کے بعد دہشت گردوں کے پاس امریکی اسلحہ آیا۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بھی انجام تک پہنچائیں گے۔
بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ہونےو الے حملوں میں 60 سے زائد ہلاکتیں
علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کی جانب سے بلوچستان میں ہونے والے حملوں میں مجموعی طور پر 60 سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق بلوچستان کے مختلف اضلاع میں عسکریت پسندوں نے پولیس تھانوں، ریلوے لائنز اور شاہراہوں پر حملے کیے ہیں جب کہ بعض مقامات پر سیکیورٹی فورسز نے جوابی آپریشنز بھی کیے ہیں۔
پاکستان فوج کے مطابق بلوچستان میں 10 فوجی جوانوں سمیت 14 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے جب کہ جوابی کارروائی میں 21 عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔
اس سے قبل اتوار اور پیر کے درمیانی شب موسیٰ خیل کے علاقے میں عسکریت پسندوں نے بسوں اور ٹرکوں کو روک کے 23 مسافروں کی قتل کردیا تھا اور 35 گاڑیاں نذرِ آتش کردی تھیں۔
مقامی پولیس کے مطابق بولان میں فائرنگ سے ہلاک ہونے والے چھ افراد کی لاشیں بھی برآمد ہوئی ہیں۔