|
پنجاب کے شہر سرگودھا کے علاقے مجاہد کالونی میں چند روز قبل مشتعل ہجوم کے تشدد کے باعث زخمی ہونے والے مسیحی شخص نذیر پیر کو اسپتال میں دم توڑ گئے۔
توہینِ مذہب کے الزام پر 25 مئی کو مشتعل ہجوم کی جانب سے جلاؤ گھیراؤ کے دوران 75 سالہ نذیر مسیح کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان کے سر، بازو اور ٹانگوں پر زخم آئے تھے۔
نذیر مسیح پر قرآن کے اوراق نذرِ آتش کرنے کا الزام تھا جس پر مشتعل ہجوم نے ان کے گھر اور جوتوں کی فیکٹری کو بھی آگ لگا دی تھی۔ بعدازاں اُنہیں بھی شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد اُنہیں زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔
پولیس نے نذیر مسیح کے خلاف توہینِ مذہب کی دفعات 295 اے، 298 اے اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ پولیس کے مطابق ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والے کے الزام میں 500 سے زائد افراد پر مقدمہ درج کر کے 180 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
پولیس ترجمان کے مطابق مشتعل افراد کے خلاف درج مقدمے میں اب قتل کی دفعہ 302 کا اندراج بھی کیا جائے گا۔
سرگودھا میں دفعہ 144 میں ایک ہفتے کی توسیع
مجاہد کالونی میں 25 مئی کو پیش آنے والے واقعے کے بعد اب صورتِ حال معمول پر آنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ تاہم ڈپٹی کمشنر سرگودھا کی طرف سے دفعہ 144 میں مزید ایک ہفتے کی توسیع کر دی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والے افراد سے آلہ قتل، آگ لگانے کا سامان اور فیکٹری و گھر سے لوٹا گیا سامان برآمد کیا گیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس بارے میں ذمہ داران کا تعین کیا جا رہا ہے اور جو قصوروار ہوں گے صرف ان کا ہی چالان کیا جائے گا۔
آئی جی پنجاب پولیس نے اس واقعے کے "ماسٹر مائنڈ" کا تعین کرنے اور اسے گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا تاہم سرگودھا پولیس تاحال ایسا نہیں کر سکی۔
صوبہ پنجاب میں 18 خواتین سمیت 555 افراد توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت جیلوں میں بند
پنجاب میں بڑی تعداد میں اقلیتوں کو توہینِ مذہب کے تحت درج مقدمات اور گرفتاریوں کا سامنا ہے۔ اقلیتیں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کیے جاتے ہیں اور انہیں توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے۔
پنجاب پریزن کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق توہینِ مذہب کے کیسز میں اس وقت پنجاب کی جیلوں میں 555 قیدی بند ہیں جن میں 537 مرد قیدی اور 18 خواتین قیدی شامل ہیں۔ ان میں سے 505 انڈر ٹرائل ہیں جب کہ ایک خاتون اور 49 مرد قیدیوں کو ٹرائل کورٹ سے سزا ہو چکی ہے۔
مذہب کے نام پر جلاؤ گھیراؤ کے بڑھتے واقعات
پنجاب اسمبلی کے رکن عمانوئیل اطہر جولیس نے سرگودھا میں نذیر مسیح کی آخری رسومات میں شرکت کے بعد میڈیا کو بتایا کہ تین روز قبل نذیر مسیح کے سر کا آپریشن ہوا تھا جس کے بعد ڈاکٹروں نے اگلے 72 گھنٹے اہم قرار دیے تھے۔
عمانوئیل اطہر جولیس کہتے ہیں کہ اب تو اقلیتی ارکان اسمبلی کے ساتھ ساتھ مسلمان ارکان اسمبلی بھی یہ سوچنے لگے ہیں کہ مذہب کے نام پر جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں مسلسل اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ "جب تک آپ قانون کو ہاتھ میں لینے اور قانون کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی نہیں کریں گے اس وقت تک مذہب کے نام پر جلاؤ گھیراؤ کے واقعات ہوتے رہیں گے۔"
یاد رہے کہ رواں سال ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے مطالبہ کیا تھا کہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے ایک قومی کمیشن قائم کیا جائے جس کا دائرۂ کار تمام صوبوں تک پھیلایا جائے۔ ایچ آر سی پی کے مطابق 2020 میں بننے والا کمیشن اقلیتوں کے مطالبات پورے کرنے میں ناکام ہوا تھا۔
ایچ آر سی پی کے مطابق اقلیتی برادریوں کے نمائندگان کا کہنا ہے کہ کمیشن کی تشکیل کرتے وقت اس کے ارکان کی اکثریت اقلیتوں سے ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ درس گاہوں کا نصاب بہتر کیا جائے تاکہ اس سے نفرت انگیز مواد ختم ہو اور پاکستان کے قیام میں اقلیتوں کا کردار نظر آئے۔
پاکستان میں حالیہ برسوں میں توہینِ مذہب کے ملزمان یا اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر بہاولپور میں 28 اکتوبر 2001 کو ایک چرچ پر مسلح افراد کے حملے میں بچوں سمیت 16 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ایک سال بعد 17 مارچ 2002 میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سفارت خانوں کے لیے مخصوص علاقے میں واقع چرچ پر دستی بم سے حملے میں ایک امریکی خاتون اور ان کی بیٹی سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اگست 2002 میں صوبہ پنجاب کے پرفضا پہاڑی تفریحی مقام مری میں واقع غیر ملکیوں کے ایک مشنری اسکول پر مسلح افراد کے حملے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے، ہلاک ہونے والوں میں کوئی غیر ملکی شامل نہیں تھا۔
سنہ 2002 میں ہی ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مسیحی برادری کے ایک فلاحی ادارے ’ادارہ برائے امن و انصاف‘ پر مسلح افراد کے حملے میں سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
نو اگست 2002 میں ٹیکسلا کے پرسبٹیرئن اسپتال کے گرجا گھر پر ہونے والے حملے میں چار خواتین ہلاک ہو گئی تھیں، 25 دسمبر 2002 کو کرسمس کے موقع پر پنجاب کے شہر ڈسکہ میں ایک چرچ پر دستی بم کے حملے میں تین مسیحی لڑکیاں ہلاک اور متعدد خواتین زخمی ہو گئی تھیں۔
جڑانوالہ میں اگست 2023 میں توہینِ مذہب کے الزامات کے بعد مشتعل ہجوم نے 19 گرجا گھروں اور مسیحی عبادت گاہوں کے علاوہ 86 مکانات کو آگ لگا دی تھی اور ان میں توڑ پھوڑ کی تھی۔ پولیس نے 130 افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تین دسمبر 2021 کو سیالکوٹ میں فیکٹری ملازمین نے فیکٹری کے مینیجر سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو توہینِ مذہب کے الزام میں قتل کر دیا تھا اور لاش کو آگ لگا دی تھی۔
اسی طرح جولائی 2020 میں پشاور میں توہینِ مذہب کے مقدمے میں ایک مبینہ ملزم کو عدالت میں جج کے سامنے گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
سال 2017 میں صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا جب توہین مذہب کے الزام میں ایک طالبِ علم مشال خان کو بے دردی سے تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ نومبر 2020 میں پنجاب کے ضلع خوشاب میں توہینِ مذہب کا الزام لگا کر سیکیورٹی گارڈ نے بینک کے مینیجر کو قتل کردیا تھا۔
پاکستان کی حکومت توہینِ مذہب کے الزامات کے بعد تشدد کے واقعات کی مذمت کرتی رہی ہے، تاہم حکومت کا یہ دعویٰ بھی رہا ہے کہ توہینِ مذہب قانون کا غلط استعمال روک کر کئی مقدمات خارج بھی کیے گئے ہیں۔
فورم