پاکستان میں حالیہ مہلک دہشت گرد واقعات کے بعد سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ملک بھر میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آئی ہے اور گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں 17 مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ سیکڑوں مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا بتایا جا رہا ہے۔
حکام کے مطابق اتوار کو علی الصبح 11 مشتبہ دہشت گرد افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں مارے گئے۔ اس کارروائی میں دو سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
اطلاعات کے مطابق یہ مشتبہ عسکریت پسند افغان سرحد عبور کر کے کرم ایجنسی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایک اور کارروائی میں پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے ضلع لیہ کے علاقے میں خفیہ معلومات کی بنیاد پر چھاپا مارا جہاں ان کا مشتبہ عسکریت پسندوں سے فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔
اس کارروائی میں پانچ مشتبہ دہشت گرد مارے گئے جب کہ چار فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ حکام کے بقول ان افراد کا تعلق کالعدم شدت پسند تنظیم جماعت الاحرار سے تھا۔
جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں بھی ایک مطلوب مشتبہ دہشت گرد سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں مارا گیا۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ملک کے حصوں میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سب سے مہلک خودکش بم حملہ جمعرات کو سندھ کے علاقے سیہون میں صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہوا جہاں 80 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
اسی اثناء میں حکام نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں میں ساڑھے چار سو سے زائد مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لیا ہے جن میں درجنوں افغان باشندے بھی شامل ہیں۔
دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بعد حکومت کو حزب مخالف کی طرف سے بھی کڑی تنقید کا سامنا ہے اور اتوار کو ہی سکھر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف وضع کردہ قومی لائحہ عمل پر سنجیدگی سے عمل نہیں کر پائی جس کی وجہ سے یہ واقعات رونما ہوئے۔
"لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کیا جا رہا ہے۔۔۔ایسے گروہ ہیں جو یہ کر رہے ہیں ہم نے بارہا یہ کہا ہے کہ پنجاب میں (انتہا پسندوں کی) آماجگاہیں ہیں آپ (حکومت) کالعدم تنظیموں سے بات چیت کر رہے ہیں انھیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے رہے ہیں تو یہ (ایسے عناصر کی) حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔"
تاہم حکومت ایسی تنقید کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے کہتی ہے کہ دہشت گردوں کا خاتمہ اس کی اولین ترجیح ہے اور اس ضمن میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گی۔
حکومتی جماعت کے رکن قومی اسمبلی رانا محمد افضل کہتے ہیں کہ اس وقت سیاسی و سماجی سطح پر اتحاد کی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد اب آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں جو کہ "حکومت کے لیے بھی ایک مشکل صورتحال ہے لیکن اس طرح کے حملوں میں یہ (دہشت گرد) کامیاب تو ہو جاتے ہیں لیکن عوام کی نفرت اور قوم کا اتحاد اس سے آتا ہے تو قوم جب متحد ہو گی تو آنے والے وقتوں میں (دہشت گردوں میں) اضطراب آئے گا انھیں مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑے گا۔"
لیکن حکومتی دعوؤں کے باوجود ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ملک میں ماضی کی نسبت امن و امان کی بہتر ہوتی صورتحال کی وجہ سے سیاسی جماعتوں بشمول حکومت کی توجہ دیگر معاملات کی طرف مبذول ہو گئی اور انسداد دہشت گردی کا معاملہ پہلے جیسی توجہ حاصل نہیں کر پایا۔
سابق سیکرٹری داخلہ اور سلامتی کے امور کے تجزیہ کار تسنیم نورانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا۔
"ضرب عضب کے بعد ایک تاثر یہ تھا، فوج میں بھی اور سول میں بھی تھا کہ حالات ٹھیک ہو گئے ہیں، مطلب ایک غیر حقیقی اطمینان سا تھا اور اندازہ نہیں تھا کہ اتنے بڑے حملے یہ (دہشت گرد) کریں گے۔"
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف تمام کوششوں کو تسلسل اور تندہی سے جاری رکھنے سے ہی اب تک حاصل ہونے والے نتائج کو دیرپا بنایا جا سکتا ہے۔