امریکی وزیر دفاع، جِم میٹس نے کہا ہے کہ انسپیکٹر جنرل کی رپورٹ جس میں افغان قومی فوج کی وردیوں پر دو کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی لاگت آنے کی بات کی گئی ہے، نہ صرف اسراف کے زمرے میں آتا ہے، بلکہ یہ ایک ’’فرسودہ سوچ کی ایک مثال ہے‘‘۔
پینٹاگان کے سربراہ نے یہ بیان پیر کو جاری ہونے والے ایک یادداشت نامے میں دیا ہے، جس میں اُنھوں نے اپنے محکمے سے کہا ہے کہ وہ مالی وسائل ضائع ہونے کے معاملوں پر توجہ دے۔
میٹس نے لکھا ہے کہ ’’ہمارے افغان ساجھے داروں کے یونیفارم اس طرح خریدنا، جس کام میں گذشتہ دس برس کے دوران ٹیکس دہندگان کے کروڑوں ڈالر ضائع ہوئے، دھیان دینے کی ضرورت ہے، چونکہ محکمے کی ذمہ داریاں اور بجٹ کا خیال کیا جانا لازم ہے‘‘۔
سنہ 2002 سے اب تک، امریکی حکومت نے افغانستان کی امداد اور تعمیر نو کی مد میں 11 کروڑ اور 70 لاکھ ڈالر مختص کیے، جس میں سے 66 ارب ڈالر افغان سکیورٹی فورسز کو ہتھیار، تربیت اور زیریں ڈھانچے کی مرمت اور تعمیر نو کے لیے فراہم کیے گئے۔
جون میں، افغانستان کی تعمیر نو کے خصوصی انسپیکٹر جنرل کے دفتر نے بتایا تھا کہ 2007ء سے امریکی محکمہٴ دفاع نے افغان نیشنل آرمی کی وردیوں کے لیے 13 لاکھ ڈالر فراہم کیے، جو معاملہ دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس طرح کے اخراجات مناسب طرز عمل کے مقابلے میں کم از کم 40 فی زیادہ ہوتے ہیں، جب کہ ڈزائن کے فرق کے معاملے پر دو کروڑ 60 لاکھ سے دو کروڑ 80 لاکھ ڈالر اضافی خرچ کیے گئے۔