امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر، ایچ آر مک ماسٹر نے کہا ہے کہ اِس بات کی ضرورت ہے کہ طالبان کے تمام دھڑوں کے خلاف موئثر کارروائی کی جائے۔ بقول اُن کے، ''پاکستان کو سمجھنا ہوگا کہ یہ بات خود پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے کہ کسی چنیدہ دھڑے کو چھوڑ کر باقیوں کے خلاف اقدام کرنا ٹھیک نہیں، جیسا کہ ماضی میں کیا گیا''۔
جنرل مک ماسٹر نے کہا ہے کہ ''پاکستان کے اپنے بہترین مفاد میں ہوگا کہ افغانستان یا کہیں اور تشدد پر مبنی 'پراکسیز' میں پڑنے کی جگہ سفارت کاری کی راہ اپنائی جائے۔''
اُنھوں نے یہ بات اتوار کے روز افغان ٹیلی ویژن چینل، 'طلوع نیوز' کے نمائندے، لطف اللہ نجف زادے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہی ہے۔ مک ماسٹر نے کہا کہ ''ہم سب کئی برسوں سے اِسی بات کی توقع کرتے آئے ہیں''۔
اُن سے پوچھا گیا کہ دورہ پاکستان سے قبل، اِس ضمن میں، وہ پاکستان کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر اتوار کے روز کابل پہنچے جہاں اُنھوں نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔ اُن کے علاوہ، مک ماسٹر دیگر افغان قائدین سے سلامتی کے امور اور سرزمین پر امریکی فوجوں کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔
صوبہ ننگرہار میں گرائے جانے والے سب سے بڑے غیر جوہری بم سے متعلق ایک سوال پر، اُنھوں نے کہا کہ ''داعش کے شدت پسندوں کو من مانی نہیں کرنے دی جائے گی''۔ اس سلسلے میں، اُن کا کہنا تھا کہ ''امریکی فوج کے علاوہ، بہادر افغان فوجی افغانستان کے امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے دلیری سے لڑ رہے ہیں''۔
داعش کے بارے میں، جنرل مک ماسٹر نے کہا کہ ''یہ وہ لوگ ہیں جو خواتین سے زیادتی کرتے ہیں اور اسپتالوں میں داخل مریضوں تک کو گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ ہم اس قسم کی مزاحمت کرنے والی تنظیم کو کسی طور پر بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ لوگ مہذب دنیا کے لیے خطرہ ہیں۔ اِن گروپوں کے خلاف ہم طویل مدت سے مل کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ لازم ہے کہ اِن گروپوں کو شکست دی جائے''۔
یہ معلوم کرنے پر آیا طالبان پر بھی اِسی نوع کا دبائو ڈالا جائے گا، اُنھوں نے کہا کہ ''طالبان کو شکست دینا بھی اتنا ہی ضروری ہے''۔
اُنھوں نے کہا کہ ''طالبان کو شکست دی جائے گی، ماسوائے اُن کے جو مصالحتی انداز اپناتے ہیں، جو افغان بھائیوں سے ملنے کے لیے تیار ہیں، افغان ریاست کو مضبوط کرنے کے خواہاں ہیں، جو سیاسی عمل کا حصہ بننا چاہتے ہیں، جس بات کا افغان صدر اور ملک کے چیف اگزیکٹو خیرمقدم کریں گے''۔
اُنھوں نے کہا کہ ''اب اِس بات کا فیصلہ کرنا طالبان کا کام ہے''۔ انٹرویو کرنے والے نے جب یہ کہا کہ ''وہ اِس طرف نہیں آ رہے ہیں؟''، تو امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے کہا ''جو ایسا نہیں کریں گے، اُنھیں میدانِ جنگ میں شکست دی جائے گی''۔
مک ماسٹر نے واضح کیا کہ ''افغانستان کے بارے میں نئی حکمتِ عملی صدر ڈونالڈ ٹرمپ وضع کر رہے ہیں، جس کے تحت، افغان حکومت اور افغان سلامتی فورسز کو مضبوط کیا جائے گا، تاکہ مشکل میں گھرے افغان عوام کی مدد کی جاسکے، جنھوں نے طویل مدت سے مشکلات جھیلیں ہیں''۔
روس کی سرپرستی میں ماسکو میں ہونے والے افغان مذاکرات کے بارے میں، جن میں امریکہ شریک نہیں، ایک سوال پر، اُنھوں نے کہا کہ ''کسی کو بھی طالبان، اُن کی مسلح مزاحمت، یا افغان حکومت یا عوام کے خلاف کارروائیوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیئے''۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ''امریکہ اس بات کے حق میں ہے کہ خطے کے ممالک حکومتِ افغانستان اور عوام کی مدد کے لیے مثبت کردار ادا کریں، ناکہ طویل عرصے سے جاری تنازع کو طول دینے کا باعث بنیں''۔
ایک اور سوال کے جواب میں، اُنھوں نے کہا کہ ''2017ء کے حالات مختلف ہیں، اب یہ 2001ء کا دور نہیں رہا''۔
اُنھوں نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ افغانستان میں اب تک حاصل کردہ بہتری کی حفاظت کی جائے اور اصلاحات کے ذریعے مزید بہتری لائی جائے، جس ضمن میں، اُن کا کہنا تھا کہ ''صدر اشرف غنی کی حکومت ضروری اصلاحات پر تیار ہے، جن سے ملکی سلامتی اور استحکام کو تقویت ملے''۔