رسائی کے لنکس

بریگزٹ: یورپی یونین برطانیہ کو مزید رعایتیں دینے پر آمادہ


برطانیہ کی وزیرِ اعظم تھریسا مے نے کہا ہے کہ وہ یورپی یونین سے 'بریگزٹ' سے متعلق معاہدے میں بعض رعایتوں پر یقین دہانی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔

برطانوی وزیرِ اعظم نے یہ بیان پیر کو فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں یورپی کمیشن کے سربراہ جین کلاڈ جنکر سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں کیا۔

تھریسا مے پیر کو ہنگامی طور پر یورپی قیادت کے ساتھ 'بریگزٹ ڈیل' پر مزید کچھ رعایتیں حاصل کرنے کی نیت سے مذاکرات کے لیے اسٹراس برگ پہنچی تھیں۔

انہوں نے یہ دورہ برطانوی پارلیمان میں 'بریگزٹ' معاہدے پر منگل کو ہونے والی رائے شماری سے صرف ایک روز قبل کیا جس کا مقصد معاہدے پر پارلیمان کے تحفظات دور کرنا تھا۔

لیکن یہ واضح نہیں کہ آیا ان کی یہ کوششیں ارکانِ پارلیمان کو قائل کرپائیں گی جو مسلسل برطانوی حکومت اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والے مجوزہ معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اسے برطانوی مفادات کے خلاف قرار دے چکے ہیں۔

پیر کی شب پریس کانفرنس میں یورپی کمیشن کے سربراہ جین کلاڈ جنکر نے خبردار کیا کہ نیا معاہدہ حتمی ہے اور اسے قبول کرنے یا رد کرنے کے سوا کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یا تو برطانوی پارلیمان اپنے ملک کی یورپی یونین سے تمیزدارانہ علیحدگی کے لیے اس معاہدے کو قبول کرے ورنہ کوئی 'بریگزٹ' نہیں ہوگا۔

اس موقع پر تھریسا مے نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں یورپی قیادت نے برطانیہ کی یونین سے علیحدگی کے بعد یونین کے رکن ملک آئرلینڈ اور برطانوی صوبے شمالی آئرلینڈ کے درمیان سرحد کھلی رکھنے سے متعلق یقین دہانی کرائی ہے جس کے فریقین قانونی طور پر پابند ہوں گے۔

'آئرش بیک اسٹاپ' نامی یہ شرط معاہدے پر ایک بڑی وجۂ نزاع تھی جسے برطانوی پارلیمان نے ملک کو تقسیم کرنے والا اقدام قرار دیتے ہوئے ماننے سے صاف انکار کردیا تھا۔

برطانوی حکومت کے مطابق تبدیل شدہ معاہدے کو منگل کو ہی بحث کے لیے پارلیمان میں پیش کردیا جائے گا جس کے فوراً بعد اس پر رائے شماری ہوگی۔

تاہم برطانوی حزبِ اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی نے نئے معاہدے کو بھی رد کردیا ہے اور کہا ہے کہ وزیرِ اعظم وہ رعایتیں حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں جن کا انہوں نے پارلیمان سے وعدہ کیا تھا۔

برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے 29 مارچ کی ڈیڈلائن ہے جس میں اب صرف 17 روز رہ گئے ہیں۔ اگر اس سے قبل برطانوی پارلیمان نے معاہدے کی منظوری نہ دی تو صورتِ حال یورپی یونین اور برطانیہ دونوں کے لیے انتہائی پیچیدہ ہوسکتی ہے جس کے معیشت پر تباہ کن اثرات پڑنے کا خدشہ ہے۔

برطانوی پارلیمان نے اس سے قبل جنوری میں بریگزٹ سے متعلق وہ مجوزہ معاہدہ بھاری اکثریت سے مسترد کردیا تھا جس پر وزیرِ اعظم مے نے 18 ماہ کی محنت اور طویل مذاکرات کے بعد یورپی یونین کے ساتھ اتفاق کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG