میڈیا کے بہت بڑے سرمایہ کار روپرٹ مرڈوخ نے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو نئے سخت صحافتی ضابطے اپنانے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نیا نظام الجھا ہوا اور پیچیدہ ہے اور یہ کہ ڈیوڈ کیمرون نے اپنے حامیوں کو مایوس کیا ہے۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون پیر کے روز اپنی اتحادی پارٹیوں اور اپوزیشن کی لیبر پارٹی کے ساتھ برطانیہ میں صحافت کے ایک ایسے نئے انضباطی ادارے پر متفق ہوئے تھے جس کو یہ اختیارات حاصل ہوں گے کہ وہ اخبارات پر بھاری جرمانے عائد کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں حالات کی مناسبت سے پابند کرسکے گا کہ وہ واضح معذرت شائع کیا کریں۔
مرڈوخ نے سماجی رابطوں کی ایک ویب سائیٹ ’ٹوئیٹر‘ پر جمعرات کو اپنے ایک پیغام میں لکھا، ’’کیمرون کا اصل رنگ دیکھ کر اس کے حامی دنگ رہ گئے۔‘‘
روپرٹ مرڈوخ کے زیر انتظام چلائے جانے والے اخبار ’دی سن‘ جس کے وہ سربراہ اور چیف ایگزیکیٹو ہیں، نے بھی جمعرات کو اپنے پہلے صفحے پر حکومت کے سالانہ بجٹ کو تنقید کا ہدف بنایا تھا۔
ڈیوڈ کیمرون صحافت کے حوالے سے نئے ضابطہ ِ کار کے بارے میں اس وقت متحرک ہوئے تھے جب چند اخبارات کی جانب سے لوگوں کے فون ریکارڈ کرکے انہیں چھاپا گیا تھا۔ ان اخبارات میں مرڈوخ کا اخبار ’نیوز آف دی ورلڈ‘ بھی شامل تھا جو اب بند ہو چکا ہے اوراس پر عدالت میں کارروائی بھی کی گئی تھی۔
اس سے پہلے ڈیوڈ کیمرون نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ صحافت کے حوالے سے نئے ضابطے کو باقاعدہ قانون کی شکل دینی چاہیئے لیکن انہوں نے پارلیمان کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ دو ترامیم کو منظور کریں، جو ڈیوڈ کیمرون کے مطابق اس نئے نظام کو مضبوط کریں گی۔ لیکن صحافتی ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے حقِ آزادی ِ اظہار سلب ہوگا۔
برطانیہ کے بڑے صحافتی اداروں نے اس پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور وہ ابھی بھی اس سلسلے میں مشاورت کر رہے ہیں کہ اس پر کس طرح سے رد ِ عمل کا اظہار کیا جائے؟ آیا انہیں اس کا بائیکاٹ کرنا چاہیئے، قانونی کارروائی کرنی چاہیئے یا پھر اس حوالے سے ایک نئے نظام کے لیے مطالبہ کرنا چاہیئے۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون پیر کے روز اپنی اتحادی پارٹیوں اور اپوزیشن کی لیبر پارٹی کے ساتھ برطانیہ میں صحافت کے ایک ایسے نئے انضباطی ادارے پر متفق ہوئے تھے جس کو یہ اختیارات حاصل ہوں گے کہ وہ اخبارات پر بھاری جرمانے عائد کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں حالات کی مناسبت سے پابند کرسکے گا کہ وہ واضح معذرت شائع کیا کریں۔
مرڈوخ نے سماجی رابطوں کی ایک ویب سائیٹ ’ٹوئیٹر‘ پر جمعرات کو اپنے ایک پیغام میں لکھا، ’’کیمرون کا اصل رنگ دیکھ کر اس کے حامی دنگ رہ گئے۔‘‘
روپرٹ مرڈوخ کے زیر انتظام چلائے جانے والے اخبار ’دی سن‘ جس کے وہ سربراہ اور چیف ایگزیکیٹو ہیں، نے بھی جمعرات کو اپنے پہلے صفحے پر حکومت کے سالانہ بجٹ کو تنقید کا ہدف بنایا تھا۔
ڈیوڈ کیمرون صحافت کے حوالے سے نئے ضابطہ ِ کار کے بارے میں اس وقت متحرک ہوئے تھے جب چند اخبارات کی جانب سے لوگوں کے فون ریکارڈ کرکے انہیں چھاپا گیا تھا۔ ان اخبارات میں مرڈوخ کا اخبار ’نیوز آف دی ورلڈ‘ بھی شامل تھا جو اب بند ہو چکا ہے اوراس پر عدالت میں کارروائی بھی کی گئی تھی۔
اس سے پہلے ڈیوڈ کیمرون نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ صحافت کے حوالے سے نئے ضابطے کو باقاعدہ قانون کی شکل دینی چاہیئے لیکن انہوں نے پارلیمان کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ دو ترامیم کو منظور کریں، جو ڈیوڈ کیمرون کے مطابق اس نئے نظام کو مضبوط کریں گی۔ لیکن صحافتی ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے حقِ آزادی ِ اظہار سلب ہوگا۔
برطانیہ کے بڑے صحافتی اداروں نے اس پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور وہ ابھی بھی اس سلسلے میں مشاورت کر رہے ہیں کہ اس پر کس طرح سے رد ِ عمل کا اظہار کیا جائے؟ آیا انہیں اس کا بائیکاٹ کرنا چاہیئے، قانونی کارروائی کرنی چاہیئے یا پھر اس حوالے سے ایک نئے نظام کے لیے مطالبہ کرنا چاہیئے۔