رسائی کے لنکس

حسین حقانی کے بیرون ملک جانے پر پابندی


حسین حقانی کے بیرون ملک جانے پر پابندی
حسین حقانی کے بیرون ملک جانے پر پابندی

ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے ’میمو گیٹ‘ اسکینڈل کی تحقیقات اورحسین حقانی کو سفیر کےعہدے سے برطرف کرنے کےفیصلوں کے باوجود نواز شریف کا عدالت عظمٰی سے رجوع کرنے کا مقصد بظاہر میڈیا کی توجہ اپنی اور اپنی جماعت کی جانب مبذول کرانا ہے کیونکہ مقامی ذرائع ابلاغ میں ان دنوں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے چرچے ہیں جس سے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) خاصی پریشان ہے۔

پاکستان کی عدالت عظمٰی نے’میمو گیٹ اسکینڈل‘ کے حقائق منظرعام پرلانے اور اس میں ملوث افراد کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دائر درخواستوں کی جمعرات کو ابتدائی سماعت کے بعد امریکہ میں سابق سفیر حسین حقانی کو بیرون ملک جانے سے روک دیا ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کی درخواست میں نامزد کردہ فریقین کو بھی اپنا تحریری موقف پیش کرنے کے لیے 15 روز کی مہلت دی ہے۔

مزید برآں عدالت نے ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کی ہدایت بھی کی جو تین ہفتوں میں اس اسکینڈل سے متعلق شواہد اور متعلقہ افراد کے بیانات اکٹھے کرے گا۔ سپریم کورٹ نے اس ایک رکنی کمیشن کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کے سابق سربراہ طارق کھوسہ کا نام تجویز کرتے ہوئے رجسٹرار آفس کو ہدایت کی کہ اس سلسلے میں اُن کی رضامندی بھی معلوم کی جائے۔

مقدمے کی سماعت کے وقت نواز شریف خود بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ اُنھوں نےاپنی درخواست میں صدر آصف علی زرداری، وفاق، حسین حقانی اور اعجاز منصور کے علاوہ پاکستانی فوجی قیادت کو بھی فریق بنایا ہے۔

سابق سفیر حسین حقانی
سابق سفیر حسین حقانی

انٹرنیٹ پر پیغامات کے تبادلے کے مقبول ذریعے ’ٹوئیٹر‘ پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر اپنے فوری رد عمل میں سابق سفیر حقانی نے کہا ہے کہ ’’میں اس لیے پاکستان واپس نہیں آیا کہ تحقیقات مکمل ہوئے بغیر چلا جاؤں۔‘‘

پاکستانی نژاد ایک امریکی بزنس مین منصوراعجاز کا الزام ہے کہ اُنھوں نے حسین حقانی کی ہدایت پرمئی میں صدر زدرادی سے منسوب ایک ’میمو‘ یا مکتوب اعلٰی امریکی حکام کو پہنچایا تھا جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف یکطرفہ خفیہ امریکی آپریشن پرغضبناک پاکستانی فوج سیاسی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔

صدارتی مکتوب میں ممکنہ فوجی بغاوت کا قبل از وقت سر کچلنے کے لیے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی برطرفی کے سلسلے میں امریکہ سے مدد مانگی گئی تھی۔

حسین حقانی اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی مبینہ مکتوب کو پاکستان کی جمہوری حکومت کے خلاف سازش قرار دے کر اس سے لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں۔

لیکن اندرون ملک زور پکڑتے مطالبات کے جواب میں وزیر اعظم نے متنازع خط کی تحقیقات کی ذمہ داری پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو سونپتے ہوئے اُسے اپنی رپورٹ جلد سے جلد حکومت کو پیش کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔

وزیر اعظم گیلانی نے’’میمو گیٹ‘‘ کے نام سے پکارے جانے والے اس اسکینڈل کے تحقیقات کی ہدایات جاری کرتے وقت حسین حقانی سے استعفٰی لے کر اُن کی جگہ سابق وزیر اطلاعات شیری رحمٰن کو امریکہ میں پاکستان کا نیا سفیر مقرر کر دیا۔

جمعرات کو جاری کیے گئے اپنے تازہ بیان میں سابق سفیر کا کہنا تھا کہ ’’میں اس لیے مستعفی ہوا کیونکہ کوئی بھی شخص جس کا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہو سفیر کی حیثیت سے اپنے ملک کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔‘‘

قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس نوعیت کے مقدمات میں صدر مملکت کو فریق نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ آئین کےتحت ملک کے سربراہ کو استعثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے ’’میمو گیٹ اسکینڈل‘‘ کی تحقیقات اور حسین حقانی کو سفیر کے عہدے سے برطرف کرنے کے فیصلوں کے باوجود نواز شریف کا عدالت عظمٰی سے رجوع کرنے کا مقصد بظاہر میڈیا کی توجہ اپنی اور اپنی جماعت کی جانب مبذول کرانا ہے کیونکہ مقامی ذرائع ابلاغ میں ان دنوں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے چرچے ہیں جس سے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) خاصی پریشان ہے۔

XS
SM
MD
LG