سپریم کورٹ نے امریکی قیادت کو لکھے گئے متنازع خط کی تحقیقات سے متعلق آئینی درخواستوں پر عدالتی کارروائی جمعرات یکم دسمبر سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) اور دیگر افراد کی جانب سے دائر کی گئی ان درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تشکیل دیا گیا نو رکنی بینچ گرے گا۔
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کی جانب سے گزشتہ ہفتے دائر کی گئی درخواست میں صدر آصف علی زرداری، خارجہ سیکرٹری سلمان بشیر، امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی اور اس تنازع کے مرکزی کردار پاکستانی نژاد کاروباری شخصیت منصور اعجاز کے علاوہ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست گزار نے مبینہ خط کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی ہے تاکہ اس معاملے میں ملوث افراد کی نشاندہی کی جا سکے۔
نواز شریف کی طرف سے منگل کو ایک اور درخواست بھی سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں عدالتی کارروائی کے جلد از جلد آغاز کا مطالبہ کیا گیا۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق تازہ ترین درخواست میں قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں تین روز قبل ہونے والی نیٹو کی مہلک کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ملک کی سالمیت خطرے میں ہے۔
پیر کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے مبینہ طور پر حسین حقانی کی ہدایت پر امریکی اعلیٰ فوجی قیادت کو پہنچائے گئے خط کی تحقیقات کی ذمہ داری پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو سونپنے کی ہدایت کی تھی۔
منصور اعجاز کا دعویٰ ہے کہ اُنھوں نے صدر زرداری سے منسوب خط حسین حقانی کے کہنے پر لکھا تھا۔
سابق سفیر ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں، تاہم اُنھوں نے وزیر اعظم گیلانی کی ہدایت پر گزشتہ ہفتے سفیر کے عہدے استعفیٰ دے دیا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد حسین حقانی کے خلاف الزامات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کو یقینی بنانا تھا۔
خفیہ مراسلے میں فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان کو برطرف کرنے کے سلسلے میں امریکہ سے مدد مانگی گئی تھی اور منصور اعجاز کے انکشاف کے بعد فوجی قیادت نے اس معاملے کو وزیراعظم گیلانی کے سامنے اٹھایا تھا جس کے بعد حقائق جاننے کے لیے حسین حقانی کو اسلام آباد طلب کیا گیا۔
دریں اثناء دو مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی فورسز کے خفیہ آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد حقائق جاننے کے لیے قائم کیے گئے کمیشن نے بھی حسین حقانی کو 14 دسمبر کو طلب کیا تاکہ ان سے بھی اس بارے میں معلومات حاصل کی جائیں۔