رسائی کے لنکس

منصور اعجاز کے لیے آخری موقع


اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت جہاں تحقیقاتی کمیشن کے اجلاس منعقد ہو رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت جہاں تحقیقاتی کمیشن کے اجلاس منعقد ہو رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیشن نے ’میمو‘ اسکینڈل کے اہم گواہ منصور اعجاز کی طرف سے اُن کا بیان بیرون ملک ریکارڈ کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اُن کو پاکستان آکر کمیشن کے سامنے پیش ہونے کا آخری موقع دیا ہے۔

اسلام آباد میں منگل کو اپنے چوتھے اجلاس کے موقع پر عدالتی کمیشن کا کہنا تھا کہ حکومت نے امریکی شہری کی پاکستان آمد پر اُن کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے، اس لیے اُنھیں یہاں آنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیئے۔

بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائض عیسیٰ کی سربراہی میں قائم تین رکنی کمیشن کے مطابق اگر منصور اعجاز چاہیں تو اُن کے پاکستان پہنچتے ہی کمیشن کے سیکرٹری ذاتی طور پر اُن سے شواہد اپنی تحویل میں لے سکتے ہیں۔

وزیر داخلہ رحمٰن ملک
وزیر داخلہ رحمٰن ملک

اس سے قبل وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کمیشن کی طرف سے طلب کیے جانے پر اس کے روبرو پیش ہو کر حکومت کی طرف سے یقین دہانی کرائی کے پاکستان آمد پر امریکی شہری کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے گی اور منصور اعجاز کا نام اُن افراد کی فہرست میں شامل نہیں کیا جائے گا جن کے ملک چھوڑنے پر پابندی ہوتی ہے۔

کمیشن کے اس اجلاس کا محور وزیر داخلہ کا وہ حالیہ بیان تھا جس میں اُنھوں نے بظاہر منصور اعجاز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالنے کا عندیہ دیا تھا، لیکن رحمٰن ملک نے کمیشن کے سامنے اپنے وضاحتی بیان میں اس کی تردید کی۔ رحمٰن ملک سہ پہر تین بجے کے بعد تمام وقت کمیشن کے سامنے موجود رہے۔

کمیشن نے میمو اسکینڈل کے تمام فریقین اور حکومت کے متعلقہ عہدیداروں کو اس بارے میں میڈیا کے سامنے بیانات دینے سے گریز کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔

اجلاس کے دوران امریکی قیادت کو بھیجے گئے خط کے مبینہ خالق سابق سفیر حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری نے کمیشن سے استدعا کی کہ منصور اعجاز وعدے کے باوجود اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے نہیں آئے اس لیے اب انھیں گواہی دینے کا حق نا دیا جائے۔ جس پر جسٹس فائض عیسٰی نے کہا کہ حسین حقانی خود چاہتے ہیں کہ اس معاملے کی جامع تحقیقات کر کے ان کو بری الذمہ قرار دیا جائے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام متعلقہ افراد کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔

عدالتی کمیشن کا آئندہ اجلاس 9 فروری کو ہوگا۔

ادھر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر میمو اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس بھی منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، جس میں حسین حقانی اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی طرف سے موصول ہونے والے بیانات کا جائزہ لیا گیا۔

سینیٹر رضا ربانی
سینیٹر رضا ربانی

کمیٹی کے سربراہ سینیٹر رضا ربانی نے بتایا کہ منصور اعجاز کو بھی اپنا بیان جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن ان کی طرف سے نا تو کوئی جواب داخل کرایا گیا ہے اور نا ہی مطلع کیا گیا ہے کہ آیا وہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوں گے یا نہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق کو 26 جنوری کو کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اس کو اُن حفاظتی اقدامات سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جو امریکی شہری کی پاکستان آمد کی صورت میں کیے جائیں گے۔

’’کمیٹی کے سامنے جب یہ سکیورٹی انتظامات آ جائیں گے، اُس کے بعد کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ منصور اعجاز کے بارے میں مزید لائحہ عمل کیا ہوگا۔‘‘

متنازع خط کو حکومت کاغذ کا ایک بے وقعت ٹکڑا قرار دیتی ہے، جب کہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان نے عدالت عظمیٰ میں اس حوالے سے اپنے تحریری بیانات حلفی میں ’میمو‘ کو ایک حقیقت قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات پر زور دیا تھا۔ متنازع مراسلے پر متضاد موقف سویلین حکومت اور عسکری قیادت میں تناؤ کی ایک وجہ بھی بنا ہوا ہے۔

XS
SM
MD
LG