امریکہ کی خاتون اول، مشیل اوباما سہ روزہ دورے پر جاپان پہنچی ہیں، جس کا مقصد خواتین کی تعلیم کے فروغ کے لیےاپنے عالمی جہد کی نشاندہی کرنا ہے۔
مسز اوباما کا طیارہ بدھ کی رات گئے دارلحکومت ٹوکیو پہنچا۔ جمعرات کو وہ وزیر اعظم شِنزو آبے اور اُن کی بیگم، اکائے کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقات کریں گی۔
وہ جمعے کو جاپان کے شہنشاہ اور ملکہ سے ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں، جہاں سے اُن کی آمد کیوٹو کے بارونق سیاحتی مرکز ہوگی۔
گذشتہ برس صدر اوباما نے جاپان کا دورہ کیا تھا، تب خاتون اول اُن کے ہمراہ نہیں جا پائیں تھیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دورہ اُس کمی کو پورا کرنے کی ایک کوشش کا درجہ رکھتی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’مسز اوباما بچیوں کی عالمی تعلیم کے فروغ کے لیے، امریکہ جاپان ساجھے داری ’اِنی شئیٹو‘ کا اعلان کریں گی، جس کا مقصد عالمی سطح پر چھ کروڑ 20 لاکھ بچیوں کو تعلیم دلانے میں مدد دینا ہے، جو اسکول نہیں جا پاتیں‘۔
جمعے کے دِن وہ کمبوڈیا جائیں گی، جو تعلیم کے اِس 11 ملکی پراجیکٹ میں شامل ہے۔ وہ پہلی امریکی خاتون اول ہیں جو اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کا دورہ کر رہی ہیں۔
کمبوڈیا میں، مسز اوباما کمبوڈیا کی خاتون اول، بان رینی سے ملاقات کریں گی۔
وہ امریکی ’پیس کور پروگرام‘ کے رضاکاروں کے ساتھ بھی ملاقات کریں گی، جو طالبات کی اسکول تک رسائی کو وسیع کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کریں گے۔
اِس ہفتے ’دِی وال اسٹریٹ جرنل‘ میں شائع ایک مضمون میں، مسز اوباما نے کہا ہے کہ چھ کروڑ 20 لاکھ بچیاں اسکول نہیں جاتیں، ’جو انسانی وسائل ضائع کرنے کی ایک المناک مثال ہے‘۔
اُن کے بقول، ’یہ صحت عامہ کو لاحق ایک سنگین چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے، قومی معیشتوں اور عالمی خوش حالی کے معاملے میں لیت و لعل سے کام کیا جاتا ہے، جو بات دنیا بھر کے ملکوں کی سلامتی کےلیے خطرے کا باعث ہے، جِس میں ہمارا ملک بھی شامل ہے‘۔