اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2020 کے دوران پناہ کی تلاش میں یورپ پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے،لیکن سمندری راستوں سے یورپ کا رخ کرنے والوں کی اموات اور ان کے لاپتہ ہونے کی شرح اب تک خوفناک حد تک بلند ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن (IOM) کی جانب سے جمعہ کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترک وطن کے دشوار سفر میں ہلاک ہونے والوں میں سے اکثر کی لاشوں کو تلاش کیا جا سکا ہے اور نہ ہی ان کی شناخت ہو سکی ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق، گزشتہ برس غیر منظم انداز میں ترک وطن کرکے یورپ پہنچنے والوں کی تعداد 93،000 تھی، اور ان میں اندازا 92 فیصد سمندر کے ذریعے مغربی افریقہ سے اسپین کے کنیہری جزائر پہنچے تھے۔
شینگن کا علاقہ تسلیم کئے جانے والے کنیہری جزائر میں گزشتہ سال پناہ گزینوں کی آمد میں 75 فیصد اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سے پناہ گزیں پہلے سے ہی ماہی گیری اور زراعت کے شعبے میں کام کررہے تھے، جنہیں کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا کی وجہ سے معاشی طور پر نقصان پہنچا۔
سمندری راستے دشوار گزار اور جان لیوا ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے لاپتہ مہاجرین کے معاملے پر تحقیق کے ایک پراجیکٹ نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ سال سمندری سفر کے دوران کم از کم 2،300 ہلاکتیں ہوئیں یا لوگ لاپتہ ہوئے۔۔
تاہم آرگنائزیشن نے تسلیم کیا ہے کہ اس کا ڈیٹا نامکمل ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی کشتیوں کو حادثہ پیش آیا اور وہ ڈوب گئیں، اور پھر نہ کشتیاں ملیں نہ ہی ان کے مسافر، جو کہ خاص طور پر قابل تشویش ہے۔
خبر رساں ادارے کو انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن سے ملنے والے ڈیٹا کے مطابق، بحر الکاہل اور بحیرہ روم میں سن 2020 کے دوران کم از کم 19 کشتیوں کو حادثات پیش آئے، جن کا پتہ بعد میں چلا۔ ڈیٹا کے مطابق، ان حادثات میں 571 افراد ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے حادثات کی تصدیق مشکل ہوتی ہے، کیونکہ ان کا علم ہی نہیں ہوتا۔ رپورٹ کے مطابق، یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ سمندری راستے سے یورپ آنے والے راستوں میں اموات کی صحیح تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو ڈیٹا میں نظر آتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، حال ہی میں شمار میں نہ آنے والی اموات کا علم اس وقت ہوا، جب خبر رساں ادارے کے نمائندوں نے سمندری سفر میں بچ جانے والے دو افراد کا انٹرویو کیا جو گزشتہ نومبر کنیہری جزائر پہنچے تھے۔ ان کے مطابق، ان کی کشتی پر سوار 20 سے زیادہ افراد دو ہفتے کے دشوار گزار سفر میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔