کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کے حکیم اللہ محسود دھڑے کے سربراہ شہریار محسود وہ تیسرے شخص ہیں جنہیں افغانستان میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران گھات لگا کر قتل کیا گیا ہے۔
شہریار محسود کو پاکستان کے ضلع باجوڑ سے ملحقہ افغانستان کے صوبے کنڑ میں دیسی ساختہ ریموٹ کنڑول بم سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ شہریار محسود اپنے ساتھیوں سمیت گزشتہ کئی برسوں سے کنڑ صوبے کے ایک پہاڑی علاقے میں روپوش تھے۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ 31 جنوری کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک ہوٹل کے قریب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ڈپٹی کمانڈر شیخ خالد حقانی اور ان کے قریبی ساتھی قاری سیف اللہ کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ملی تھیں۔ دونوں شدت پسندوں کو کنڑ صوبے میں دفنایا گیا تھا۔
خیال رہے کہ ہلاک ہونے والے تینوں شدت پسند پاکستان میں سرگرم رہنے والے طالبان کے گروہ کا حصہ تھے۔
شیخ خالد حقانی اور ان کے قریبی ساتھی کے پراسرار قتل پر نہ تو افغان حکومت اور نہ ہی پاکستان نے کوئی بیان جاری کیا ہے۔ البتہ جمعے کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کا ایک بیان سامنے آیا ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ خالد حقانی اور قاری سیف اللہ کے قتل سے متعلق یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ یہ دونوں ایک خفیہ ملاقات کے لیے کابل گئے ہوئے تھے۔ لیکن تحریک طالبان پاکستان ایسی بے بنیاد خبروں کو رد کرتی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ خالد حقانی اور قاری سیف اللہ معمول کی جہادی تشکیل کی عرض سے سفر میں تھے کہ راستے میں کچھ "امریکہ کے غلام غنڈوں" سے جھڑپ ہوئی اور دونوں مارے گئے۔
حال ہی میں قتل ہونے والے طالبان کمانڈر شہریار محسود جنوبی وزیرستان کے محسود قبیلے کی ذیلی شاخ شابی خیل سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے پولی ٹیکنیکل کالج سے انجینئرنگ میں ڈپلوما حاصل کیا تھا۔
زمانہ طالبعلمی کے دوران وہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی ایک تنظیم کے سربراہ رہے تھے۔ شہریار محسود کے ایک ساتھی طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹیکنیکل کالج میں اپنی تعلیم کے تیسرے سال میں وہ اکثر پراسرار طور پر غائب رہتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ شہریار محسود جب آخری امتحان دینے آئے تھے تو انہوں نے جوگر پہنے ہوئے تھے اور ان کے سر اور داڑھی کے بال بڑھے ہوئے تھے۔
شہریار محسود کا شمار کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان کے بانی کمانڈروں میں ہوتا تھا۔ وہ بیت اللہ محسود کے قریبی اور بااعتماد ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔
قاری حسین کی ہلاکت کے بعد شہریار محسود ٹی ٹی پی کے خودکش بمباروں کے شعبے کے سربراہ بن گئے تھے۔ یکم نومبر 2013 کو امریکی ڈرون حملے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد وہ لگ بھگ ایک سال تک شمالی وزیرستان میں روپوش رہے اور پھر جون 2014 میں آپریشن ضربِ عضب کی کارروائی کے بعد وہ افغانستان چلے گئے تھے۔
شہریار محسود عالمی دشت گرد تنظیم القاعدہ، حقانی نیٹ ورک اور شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی کے بھی قریب رہے ہیں۔
ایک روز قبل تحریک طالبان پاکستان حکیم اللہ محسود دھڑے کے ترجمان نصرت اللہ نصرت نے شہریار محسود کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جگہ اب مولانا والی محمد عرف عمری حکیم اللہ محسود گروہ کے سربراہ ہوں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران افغانستان میں لگ بھگ 150 ایسے شدت پسند قتل ہو چکے ہیں جو پاکستانی طالبان سے تعلق رکھتے تھے۔