واشنگٹن —
ایک امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ شدت پسند تنظیم سے تعلق رکھنے والے جنگجووں نے عراقی فوج کی مزاحمت ناکام بناتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی آئل ریفائنری پر قبضہ کرلیا ہے۔
'نیویارک ٹائمز' کا کہنا ہے کہ ریفائنری پر جنگجووں کے قبضے کی اطلاعات وہاں کام کرنے والے مزدوروں، عینی شاہدین اور ایک عراقی فوجی افسر نے اخبار کو دی ہیں۔
لیکن 'بیجی آئل ریفائنری' کی حفاظت پر معمور عراقی فوجی دستے کے کمانڈر اور بعض دیگر عراقی حکام نے ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ریفائنری کے ارد گرد پھیلے وسیع میدان میں جنگجووں اور فوج کے درمیان لڑائی اب بھی جاری ہے۔
سنی شدت پسند تنظیم 'الدولۃ اسلامیۃ فی العراق ووالشام (داعش)' کے جنگجووں نے عراقی دارالحکومت بغداد سے 130 میل شمال میں بیجی کے صحرائی علاقے میں قائم اس آئل ریفائنری کا گزشتہ ہفتے محاصرہ کیا تھا۔
بدھ کو عراق کی اس سب سے بڑی آئل ریفائنری کی حفاظت پر معمور فوج کی بٹالین اور جنگجووں کے درمیان لڑائی میں شدت آگئی تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ ریفائنری پر تعینات فوجی دستے کو گن شپ ہیلی کاپٹروں کی معاونت بھی حاصل ہے۔ لیکن 'نیویارک ٹائمز' نے عینی شاہدین کے حوالے سے کہا ہے کہ عراقی فوج فضائی بمباری کے باوجود جنگجووں کا زور توڑنے میں ناکام رہی ہے اور ریفائنری کا کنڑول جنگجووں نے سنبھال لیا ہے۔
اگر یہ خبر درست ثابت ہوئی تو سنی جنگجووں کے قبضے میں جانے والی یہ پہلی فعال آئل ریفائنری ہوگی جسے عراقی حکومت کے لیے ایک دھچکا اور جنگجووں کی ایک بڑی کامیابی تصور کیا جائے گا۔
'نیویارک ٹائمز' کی رپورٹ کے مطابق بیجی آئل ریفائنری پر 'داعش' کے جنگجووں کے مبینہ قبضے کے کئی گھنٹے بعد عراقی فوج کے ایک ترجمان نے سرکاری ٹی وی پر آکر ان اطلاعات کی تردید کی کہ ریفائنری کا قبضہ فوج کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
بیجی کی مقامی حکومت کے ایک عہدیدار اور ریفائنری کی حفاظت پر معمور دستے کے افسر نے بھی ریفائنری پر باغیوں کے قبضے کی اطلاعات کی تردید کی ہے۔
لیکن دونوں افراد نے بدھ کی شام 'نیویارک ٹائمز' کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ریفائنری کے چار داخلی راستوں میں سے دو پر جنگجووں کا قبضہ ہوگیا ہے۔
ریفائنری میں کام کرنے والے ایک اہلکار نے 'نیویارک ٹائمز' کو ٹیلی فون پر بتایا ہے کہ جنگجووں نے ریفائنری پر بدھ کی صبح چار بجے حملہ کیا تھا جس کے بعد ریفائنری میں کام بند ہوگیا تھا اور وہاں موجود کارکنوں اور مزدوروں نے تہہ خانوں میں پناہ لے لی تھی۔
اہلکار نے بتایا کہ لڑائی کے دوران قدرتی گیس کے کئی کنووں کو آگ لگ گئی تھی اور ریفائنری کی حفاظت پر معمور فوجی دستے نے بھاری نقصان اٹھانے کے بعد ہتھیار ڈال دیے تھے۔
اہلکار نے بتایا کہ جنگجووں نے کم از کم 70 افراد کو یرغمال بنا لیا ہے جب کہ ریفائنری میں کام کرنے والے بیشتر مزدوروں اور کارکنوں کو بغیر کوئی نقصان پہنچائے گھر جانے کی اجازت دیدی ہے۔
اطلاعات ہیں کہ ریفائنری میں تعینات جرمنی کی کمپنی 'سیمنز' کے 50 غیر ملکی اہلکاروں کو جنگجووں کے حملے سے پہلے ہی وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔
حکام کے مطابق وسیع و عریض رقبے پر پھیلی اس آئل ریفائنری کی پیداواری صلاحیت تین لاکھ بیرل سے زائد ہے جو دارالحکومت بغداد سمیت عراق کے 11 صوبوں کی ضروریات پورا کرتی ہے۔
ریفائنری کے ساتھ 600 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کا حامل بجلی گھر بھی موجود ہے جس پر باغیوں نے گزشتہ ہفتے ہی قبضہ کرلیا تھا۔
یہ بجلی گھر عراق کے بیشتر شمالی علاقوں کو بجلی فراہم کرتا ہے جہاں پہلے ہی سنی جنگجووں کا قبضہ ہوچکا ہے۔
دریں اثنا بین الاقوامی امدادی تنظیم 'ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز' نے کہا ہے کہ عراق کے شہر تکریت میں جنگجووں اور فوج کے درمیان گزشتہ ہفتے ہونے والی لڑائی کے دوران علاقے میں موجود اس کے ایک اسپتال کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
تنظیم نے کہا ہے کہ اسپتال کی تباہی کے باعث لڑائی کے سبب علاقے میں بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کو طبی امداد کی فراہمی معطل ہوگئی ہے۔
'نیویارک ٹائمز' کا کہنا ہے کہ ریفائنری پر جنگجووں کے قبضے کی اطلاعات وہاں کام کرنے والے مزدوروں، عینی شاہدین اور ایک عراقی فوجی افسر نے اخبار کو دی ہیں۔
لیکن 'بیجی آئل ریفائنری' کی حفاظت پر معمور عراقی فوجی دستے کے کمانڈر اور بعض دیگر عراقی حکام نے ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ریفائنری کے ارد گرد پھیلے وسیع میدان میں جنگجووں اور فوج کے درمیان لڑائی اب بھی جاری ہے۔
سنی شدت پسند تنظیم 'الدولۃ اسلامیۃ فی العراق ووالشام (داعش)' کے جنگجووں نے عراقی دارالحکومت بغداد سے 130 میل شمال میں بیجی کے صحرائی علاقے میں قائم اس آئل ریفائنری کا گزشتہ ہفتے محاصرہ کیا تھا۔
بدھ کو عراق کی اس سب سے بڑی آئل ریفائنری کی حفاظت پر معمور فوج کی بٹالین اور جنگجووں کے درمیان لڑائی میں شدت آگئی تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ ریفائنری پر تعینات فوجی دستے کو گن شپ ہیلی کاپٹروں کی معاونت بھی حاصل ہے۔ لیکن 'نیویارک ٹائمز' نے عینی شاہدین کے حوالے سے کہا ہے کہ عراقی فوج فضائی بمباری کے باوجود جنگجووں کا زور توڑنے میں ناکام رہی ہے اور ریفائنری کا کنڑول جنگجووں نے سنبھال لیا ہے۔
اگر یہ خبر درست ثابت ہوئی تو سنی جنگجووں کے قبضے میں جانے والی یہ پہلی فعال آئل ریفائنری ہوگی جسے عراقی حکومت کے لیے ایک دھچکا اور جنگجووں کی ایک بڑی کامیابی تصور کیا جائے گا۔
'نیویارک ٹائمز' کی رپورٹ کے مطابق بیجی آئل ریفائنری پر 'داعش' کے جنگجووں کے مبینہ قبضے کے کئی گھنٹے بعد عراقی فوج کے ایک ترجمان نے سرکاری ٹی وی پر آکر ان اطلاعات کی تردید کی کہ ریفائنری کا قبضہ فوج کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
بیجی کی مقامی حکومت کے ایک عہدیدار اور ریفائنری کی حفاظت پر معمور دستے کے افسر نے بھی ریفائنری پر باغیوں کے قبضے کی اطلاعات کی تردید کی ہے۔
لیکن دونوں افراد نے بدھ کی شام 'نیویارک ٹائمز' کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ریفائنری کے چار داخلی راستوں میں سے دو پر جنگجووں کا قبضہ ہوگیا ہے۔
ریفائنری میں کام کرنے والے ایک اہلکار نے 'نیویارک ٹائمز' کو ٹیلی فون پر بتایا ہے کہ جنگجووں نے ریفائنری پر بدھ کی صبح چار بجے حملہ کیا تھا جس کے بعد ریفائنری میں کام بند ہوگیا تھا اور وہاں موجود کارکنوں اور مزدوروں نے تہہ خانوں میں پناہ لے لی تھی۔
اہلکار نے بتایا کہ لڑائی کے دوران قدرتی گیس کے کئی کنووں کو آگ لگ گئی تھی اور ریفائنری کی حفاظت پر معمور فوجی دستے نے بھاری نقصان اٹھانے کے بعد ہتھیار ڈال دیے تھے۔
اہلکار نے بتایا کہ جنگجووں نے کم از کم 70 افراد کو یرغمال بنا لیا ہے جب کہ ریفائنری میں کام کرنے والے بیشتر مزدوروں اور کارکنوں کو بغیر کوئی نقصان پہنچائے گھر جانے کی اجازت دیدی ہے۔
اطلاعات ہیں کہ ریفائنری میں تعینات جرمنی کی کمپنی 'سیمنز' کے 50 غیر ملکی اہلکاروں کو جنگجووں کے حملے سے پہلے ہی وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔
حکام کے مطابق وسیع و عریض رقبے پر پھیلی اس آئل ریفائنری کی پیداواری صلاحیت تین لاکھ بیرل سے زائد ہے جو دارالحکومت بغداد سمیت عراق کے 11 صوبوں کی ضروریات پورا کرتی ہے۔
ریفائنری کے ساتھ 600 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کا حامل بجلی گھر بھی موجود ہے جس پر باغیوں نے گزشتہ ہفتے ہی قبضہ کرلیا تھا۔
یہ بجلی گھر عراق کے بیشتر شمالی علاقوں کو بجلی فراہم کرتا ہے جہاں پہلے ہی سنی جنگجووں کا قبضہ ہوچکا ہے۔
دریں اثنا بین الاقوامی امدادی تنظیم 'ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز' نے کہا ہے کہ عراق کے شہر تکریت میں جنگجووں اور فوج کے درمیان گزشتہ ہفتے ہونے والی لڑائی کے دوران علاقے میں موجود اس کے ایک اسپتال کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
تنظیم نے کہا ہے کہ اسپتال کی تباہی کے باعث لڑائی کے سبب علاقے میں بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کو طبی امداد کی فراہمی معطل ہوگئی ہے۔