واشنگٹن —
امریکہ کے ایک اعلیٰ فوجی اہل کار کا کہنا ہے کہ عراقی حکومت نے امریکہ سے فضائی حملوں کی مدد مانگی ہے، تاکہ سنی شدت پسندوں کی پیش قدمی روکی جا سکے، جنھوں نے شمالی عراق کے کلیدی شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔
چیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، جنرل مارٹن ڈیمپسی نے بدھ کے روز سینیٹ کی ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ عراق نےامریکہ سے شدت پسندوں کے خلاف فضائی حملوں کی درخواست کی ہے، جنھوں نے بدھ کو عراق کی اہم آئل رفائنری پر حملہ کیا۔
ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر، لِنڈسی گراہم نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اِس التجا کا مثبت جواب دینا خود امریکی قومی سلامتی کے مفاد میں ہے۔
متوقع طور پر امریکی صدر براک اوباما مدد کی اس التجا کے بارے میں بدھ کی شام گئے قانون سازوں کو بریفنگ دیں گے۔
ڈیمپسی نے کہا کہ بحیثیت ایک سابق فوجی، اُنھیں اس بات پر سخت مایوسی ہوئی ہے کہ شدت پسندوں نے عراق کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
جنرل ڈیمپسی کے بقول، ’القاعدہ سے متاثر شدت پسندوں کا کشیدگی کے شکار عراقی شہروں پر پرچم لہرانا، ایسا امر ہے جس کے باعث وہاں خدمات دینے والے کسی بھی سابقہ فوجی کی طرح میرے ذہن میں بھی وہی خیالات آتے ہیں، جب کہ عراقی رہنماؤں کی طرف سے اپنے عوام کے بھلے کے لیے اُنھیں متحد کرنے میں ناکامی سخت مایوسی کےاحساس کا باعث ہے‘۔
امریکی وزیر دفاع، چَک ہیگل نے کہا کہ بغاوت کے ذمے دار محض شدت پسند نہیں، بلکہ عراقی حکومت بھی ہے جو ملک کی قیادت میں شامل مختلف گروپوں کے درمیان کارگر تعلق کا جذبہ پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ہیگل کے الفاظ میں، ’میں سمجھتا ہوں، ہمیں سوچنا پڑے گا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے: آئی ایس آئی ایل، جنھوں نے فتوحات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، یا پھر وہ بھی جو عراق کے موجودہ حکمراں ہیں، جو سنیوں، کردوں اور شیعاؤں کے ساتھ اتحادی حکومت تشکیل دینے کے عزم کو کبھی بھی پورا نہیں کر پائے۔
شدت پسندوں اور سکیورٹی افواج کے درمیان بیجی میں رفائنری پر جھڑپ ہوئی ہے، جو بغداد اور موصل کے درمیان تقریباً آدھے فاصلے پر واقع ہے۔
چیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، جنرل مارٹن ڈیمپسی نے بدھ کے روز سینیٹ کی ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ عراق نےامریکہ سے شدت پسندوں کے خلاف فضائی حملوں کی درخواست کی ہے، جنھوں نے بدھ کو عراق کی اہم آئل رفائنری پر حملہ کیا۔
ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر، لِنڈسی گراہم نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اِس التجا کا مثبت جواب دینا خود امریکی قومی سلامتی کے مفاد میں ہے۔
متوقع طور پر امریکی صدر براک اوباما مدد کی اس التجا کے بارے میں بدھ کی شام گئے قانون سازوں کو بریفنگ دیں گے۔
ڈیمپسی نے کہا کہ بحیثیت ایک سابق فوجی، اُنھیں اس بات پر سخت مایوسی ہوئی ہے کہ شدت پسندوں نے عراق کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
جنرل ڈیمپسی کے بقول، ’القاعدہ سے متاثر شدت پسندوں کا کشیدگی کے شکار عراقی شہروں پر پرچم لہرانا، ایسا امر ہے جس کے باعث وہاں خدمات دینے والے کسی بھی سابقہ فوجی کی طرح میرے ذہن میں بھی وہی خیالات آتے ہیں، جب کہ عراقی رہنماؤں کی طرف سے اپنے عوام کے بھلے کے لیے اُنھیں متحد کرنے میں ناکامی سخت مایوسی کےاحساس کا باعث ہے‘۔
امریکی وزیر دفاع، چَک ہیگل نے کہا کہ بغاوت کے ذمے دار محض شدت پسند نہیں، بلکہ عراقی حکومت بھی ہے جو ملک کی قیادت میں شامل مختلف گروپوں کے درمیان کارگر تعلق کا جذبہ پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ہیگل کے الفاظ میں، ’میں سمجھتا ہوں، ہمیں سوچنا پڑے گا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے: آئی ایس آئی ایل، جنھوں نے فتوحات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، یا پھر وہ بھی جو عراق کے موجودہ حکمراں ہیں، جو سنیوں، کردوں اور شیعاؤں کے ساتھ اتحادی حکومت تشکیل دینے کے عزم کو کبھی بھی پورا نہیں کر پائے۔
شدت پسندوں اور سکیورٹی افواج کے درمیان بیجی میں رفائنری پر جھڑپ ہوئی ہے، جو بغداد اور موصل کے درمیان تقریباً آدھے فاصلے پر واقع ہے۔