پاکستان کی عدالت عظمٰی کے سترہ رکنی بینچ نے اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری سے متعلق اٹھارویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔
اُدھر اس فیصلے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں ایک بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ نے اکیسویں اور اٹھارویں آئینی ترامیم کو درست تسلیم کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کو جائز قرار دیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ ’تاریخ ساز‘ فیصلہ پاکستان کے مستقبل پر انتہائی مثبت اثرات مرتب کرے گا۔
’’اس فیصلے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تقویت ملے گی اور دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔‘‘
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل بینچ میں شامل ججوں میں سے 11 نے فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں جب کہ چھ ججوں نے مخالفت میں فیصلہ دیا۔
واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل کے تحت اکیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ملک بھر میں نو فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جن سے دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث 6 مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
لیکن فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف دائر درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے رواں سال اپریل میں فوجی عدالتوں سے سنائی گئی سزاؤں پر عمل درآمد روک دیا تھا۔
دریں اثناء اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے طریقہ کار سے متعلق دائر درخواستوں کو بھی مسترد کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ کے 17 رکنی بینچ میں شامل 14 ججوں نے آئینی ترمیم کے حق میں فیصلہ لکھا، جب کہ تین ججوں نے اس سے اختلاف کیا۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے حوالے سے عدالتی کمیشن کی سفارشات کو منظور یا مسترد کرنے کا اختیار ایک پارلیمانی کمیٹی کو دیا گیا تھا، بعض آئینی و قانونی ماہرین کا ماننا تھا کہ یہ اقدام عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔
ججوں کی تقرری سے متعلق اسی طریقہ کار اور اس میں پارلیمنٹ کے کردار کے بارے میں آئینی درخواست میں سوالات اٹھائے گئے تھے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل سمیت متعدد وکلا تنظیموں کی طرف سے اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت بنائی گئی فوجی عدالتوں کے قیام کو چیلنج کیا گیا تھا۔
درخواستوں میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ملک کے آئین میں فوجی عدالتوں کے قیام کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ اقدام ایک متوازی عدالتی نظام کے مترادف ہے۔
پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کے درمیان تفصیلی مشاورت کے بعد رواں سال کے اوائل میں پارلیمان نے اکیسویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دی تھی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات کو جلد نمٹانے کے لیےفوجی عدالتیں صرف دو سال کے لیے قائم کی گئی ہیں اور ان میں چلائے جانے والے مقدمات کے دوران ملزمان کو اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دسمبر 2014ء میں ہونے والے مہلک دہشت گرد حملے کے بعد ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے اتفاق رائے سے انسداد دہشت گردی کے ایک قومی لائحہ عمل کی منظوری دی تھی۔
اس لائحہ عمل کے تحت آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
پشاور اسکول پر دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان میں سزائے موت پانے والے مجرموں کی سزاؤں پر عمل درآمد پر عائد پابندی بھی ختم کر دی گئی تھی، جس کے بعد سے اب تک عدالتوں سے سزائیں پانے والے لگ بھگ 200 مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
جمعرات کو بھی صوبہ پنجاب کی مختلف جیلوں میں چار مجرموں کو پھانسی دی گئی۔