کراچی میں منگل کی شام فوجی گاڑی پر نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ کے واقعے کی ابتدائی تفتیشی رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے۔ تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں جائے وقوعہ سے کوئی خول نہیں ملا جس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ملزمان نے خول کیچر لگا رکھے ہوں جو خول کو زمین پر گرنے نہیں دیتے۔
جائے وقوعہ پر موجود تفتیشی حکام کے مطابق، انہیں تین جلے ہوئے کارتوس ملے ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ واقعے میں ’نائن ایم ایم‘ پستول اور دیگر چھوٹے ہتھیار استعمال ہوئے۔
کراچی پولیس چیف مشتاق مہر نے منگل کو وقوع کی جگہ کا معائنہ کرنے کے بعد ’وائس آف امریکہ‘ سمیت دیگر میڈیا نمائندوں سے بات چیت میں بتایا کہ ابتدائی تفصیلات کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد دو تھی جو موٹر سائیکل پر سوار تھے۔ ان کی فائرنگ سے فوجی جوانوں میں سے ایک دوران اسپتال منتقلی دم توڑ گیا جبکہ دوسرے نے اسپتال پہنچ کر دم توڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ شواہد اکٹھا کئے جا رہے ہیں اور تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے، جلد کسی نتیجے پر پہنچ سکیں گے۔
ادھر انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب نے میڈیا کو بتایا کہ حملہ آوروں نے فوجی جوانوں پر عقب سے فائرنگ کی۔ فائرنگ میں چھوٹے اور وزن میں ہلکے ہتھیار استعمال کئے۔ جائے وقوع سے کوئی خول نہیں ملا شاید ملزمان نے خول کیچر لگا رکھے ہوں۔ البتہ، پارکنگ پلازہ پر نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کرلی گئی ہیں جن کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ گاڑی کی پوزیشن دیکھ کر واضح ہوتا ہے کہ فائرنگ کے سبب گاڑی بے قابو ہوگئی اور قریب ہی واقع ایک مشنری اسکول کی دیوار سے جا ٹکرائی جس سے گاڑی کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ مجموعی طور پر گاڑی پر چھ فائر کئے گئے۔
واقعہ شام چار بجے کے قریب پیش آیا۔ فائرنگ سے دونوں جوان زخمی ہوئے جنہیں فوری طور پر جناح اسپتال منتقل کیا جا رہا تھا کہ ایک اہلکار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستے میں جبکہ دوسرا اہلکار اسپتال میں دوران علاج دم توڑ گیا۔
واقعے کے فوری بعد دونوں اہلکاروں کو جناح اسپتال منتقل کیا گیا۔ جناح اسپتال شعبہ حادثات کی سربراہ سیمی جمالی کے مطابق اہلکاروں کے سر، چہرے اور سینے پر زخم آئے تھے جو موت کا سبب بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم کے لئے انہیں پی این ایس شفا منتقل کیا، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی ان کی میتیں لواحقین کے حوالے کی جائیں گی۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق ہلاک ہونے والے فوجی جوانوں کے نام عبد الرزاق اور خادم حسین تھے۔ عہدے کے اعتبار سے دونوں بالترتیب لانس نائیک اور سپاہی تھے جو منگل کو بھی معمول کی ڈیوٹی پر تھے۔
اتفاقات یا قدر مشترک؟
فوجی گاڑی کو نشانہ بنانے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ یکم دسمبر 2015 کو بھی ایم اے جناح روڈ پر ملٹری پولیس کی گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ پیش آچکا ہے۔ دونوں واقعات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ دونوں واقعات میں بہت سی چیزیں ایک جیسی ہیں۔ مثلا:
دونوں واقعات صدر کی حدود میں پیش آئے۔ دونوں واقعات میں فوجی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ دونوں واقعات میں بھی حملہ آوروں کی تعداد دو تھی جبکہ نشانہ بننے والے جوانوں کی تعداد بھی دو ہی تھی۔
دونوں واقعے میں فوجی جوانوں کو عقب سے نشانہ بنایا گیا۔یکم دسمبر کو بھی منگل تھا جبکہ دونوں واقعات بھی تین بجے کے بعد پیش آئے۔