رسائی کے لنکس

لاہور دھماکے کے بعد کارروائیوں میں درجنوں گرفتاریاں


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستانی فوج کے مطابق اتوار کو پیش آنے والے واقعے کے چند گھنٹوں بعد ہی پنجاب کے مختلف علاقوں میں فوج نے مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی تھی جب کہ پولیس نے بھی متعدد کارروائیاں کرنے کا بتایا ہے۔

پاکستان کے مشرقی شہر لاہور میں اتوار کو ایک تفریحی پارک میں ہونے والے خودکش بم دھماکے میں 70 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد ملک میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی گئی ہیں اور سکیورٹی فورسز نے منگل تک مختلف علاقوں سے درجنوں مشتبہ افراد کو حراست میں لینے کا بتایا ہے۔

پاکستانی فوج کے مطابق اتوار کو پیش آنے والے واقعے کے چند گھنٹوں بعد ہی پنجاب کے مختلف علاقوں میں فوج نے مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی تھی جب کہ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ پولیس نے بھی متعدد کارروائیاں کرتے ہوئے دہشت گردوں سے تعلق کے شبے میں پانچ ہزار سے زائد افراد کو تحویل میں لیا تھا جن میں سے پوچھ گچھ کے بعد 216 کے علاوہ دیگر کو چھوڑ دیا گیا ہے۔

جون 2014ء میں شدت پسندوں کے مضبوط گڑھ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ضرب عضب شروع کیے جانے کے بعد ملک میں مجموعی طور پر امن و امان کی صورتحال میں بہتری دیکھی گئی اور سیاسی و عسکری قیادت دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا بتاتی رہی ہیں۔

لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کے چند ایک بڑے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں لاہور کے گلشن اقبال پارک کا واقعہ تازہ ترین ہے۔

فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے لاہور دھماکے کے بعد کی جانے والی فوجی کارروائیوں کے بارے میں منگل کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا۔

"پرسوں رات سے آپریشن ہو رہے ہیں پنجاب میں، پرسوں پانچ آپریشن ہوئے تھے اور ابھی جب میں آپ (صحافیوں) سے بات کر رہا ہوں، راولپنڈی میں، ملتان میں اور گردونواح میں کچھ اور علاقوں میں آپریشن ہو رہے ہیں۔"

پیر کو وزیراعظم نوا زشریف نے ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان کی سرزمین دہشت گردوں کے لیے تنگ کر دی گئی ہے اور انھیں دوبارہ سر نہیں اٹھانے دیا جائے گا۔

ان کے بقول شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کے بڑے مقاصد حل کر لیے گئے ہیں لیکن دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے تک یہ کارروائیاں جاری رہیں گی۔

لاہور بم حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک منحرف دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کی تھی جس کے ترجمان احسان اللہ احسان نے منگل کو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر ایک پیغام میں حکومت کو ایسے مزید حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم یہ جان لیں کہ یہ جنگ اب ان کے گھر تک پہنچ چکی ہے۔

پنجاب ملک کا گنجان آباد صوبہ ہے اور اس کا مرکزی شہر لاہور وزیراعظم نواز شریف کا سیاسی گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔

تاہم فوج کے ترجمان عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ یہ عزم کیا جا چکا ہے کہ ملک کے جس بھی حصے میں دہشت گردوں کے ٹھکانے، ان کے سہولت کار اور معاونین ہوں گے وہاں آپریشن ہوگا اور دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG