پاکستان کی وادیٔ کاغان سے ڈھائی برس قبل مبینہ طور پر 'لاپتا' ہونے والے صحافی مدثر نارو کی اہلیہ صدف چغتائی ہفتے کو حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گئیں جس کے بعد مدثر نارو کی فوری بازیابی کے مطالبے میں شدت آ گئی ہے۔
صدف چغتائی اپنے شوہر کی بازیابی مہم میں پیش پیش تھیں، تاہم اُن کے اچانک انتقال پر انسانی حقوق کی تنظیمیں، سماجی کارکن اور صحافی افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مدثر نارو کی فوری بازیابی یقینی بنائی جائے تاکہ وہ اہلیہ کے انتقال کے بعد اپنے کم سن بیٹے کی دیکھ بھال کر سکیں۔
کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں صدف کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صدف نے 20 مئی کو اقوامِ متحدہ کے کمشنر برائے جبری گمشدگیوں کی ایک سماعت میں بھی شریک ہونا تھا، لہذٰا جن حالات میں اُن کی موت ہوئی اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
مدثر کے اہلِ خانہ کے مطابق مدثر کی اہلیہ خاوند کی گمشدگی کی وجہ سے شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی، مصنف اور نقاد مدثر نارو اگست 2018 میں لاپتا ہوئے جس کے بعد سے اب تک ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں مل سکی۔
مدثر نارو صحافت کے علاوہ، شاعری اور ادب سے بھی لگاؤ رکھا تاہم اُنہیں پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا ناقد بھی سمجھا جاتا تھا۔
اطلاعات کے مطابق مدثر نارو اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ہمراہ سیر کے لیے گئے تھے جہاں وہ ہوٹل سے باہر گئے اور اس کے بعد لاپتا ہو گئے۔
مدثر کی گمشدگی کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ شاید وہ دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے ہیں۔ تاہم کئی روز کی تلاش کے باوجود اُن کا کچھ پتا نہ چل سکا۔
مدثر کی اہلیہ نے بعدازاں اُن کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی اور وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا نے بھی اس معاملے کا نوٹس لے لیا۔
ان کی اہلیہ صدف چغتائی اور ان کے دوستوں نے بعدازاں اُن کی بازیابی کے لیے مہم چلائی اور مختلف مواقع پر احتجاج بھی کرتے رہے۔
مدثر نارو کی اہلیہ کے انتقال کے بعد اب پھر سوشل میڈیا پر مدثر نارو کی بازیابی کا مطالبہ کیا جا رہا ہیے جب کہ اُن کے تین سالہ بیٹے کے ساتھ اظہار ہمدردی بھی کیا جا رہا ہے۔
سماجی کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری نے ٹوئٹ کی کہ مدثر کے والد نے رواں برس فروری میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے اُن کی بازیابی کے لیے رُجوع کیا۔
اُن کے بقول اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارتِ داخلہ اور دفاع کو 10 روز کے اندر جواب داخل کرنے کا نوٹس بھیجا، لیکن کسی نے جواب داخل نہیں کرایا۔
ایمان مزاری کے بقول چار مئی کو سماعت کے دوران وزارتِ دفاع نے جواب داخل کرایا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس اور ملٹری انٹیلی جنس نے بتایا ہے کہ مذکورہ شخص اُن کی تحویل میں نہیں ہے۔
سماجی کارکن اور صحافی رابعہ محمود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صدف چغتائی اور مدثر کے اہلِ خانہ پر یہ دباؤ تھا کہ وہ مدثر کے معاملے کو اقوامِ متحدہ کے کمیشن کے سامنے نہ اُٹھائیں۔
اُن کے بقول مدثر کی گمشدگی کے بعد جب صدف نے اس معاملے کو اُٹھایا تو اُنہیں بھی ابتدا میں ہراساں کیا گیا۔
معروف گلوکار شہزاد رائے نے ٹوئٹ کی کہ مدثر کا کم سن بیٹا اب اس دنیا میں اکیلا ہے اور اپنے والد کا انتظار کر رہا ہے۔
سماجی کارکن ندا کرمانی نے ٹوئٹ کی کہ صدف ایک باہمت خاتون تھیں جو دو برس سے اپنے لاپتا شوہر کی بازیابی کے لیے مہم چلا رہی تھیں۔ مدثر اور اُن کے اہلِ خانہ انصاف کو انصاف ملنا چاہیے۔
پاکستان کی حکومت جبری گمشدگیوں کے اکثر معاملات سے لاتعلقی کا اظہار کرتی رہی ہے۔
حال ہی میں پاکستان کی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا تھا کہ کابینہ کی کمیٹی برائے قانون نے جبری گمشدگی کو مجرمانہ فعل قرار دینے کا قانون منظور کر لیا ہے جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق شکایات کا ازالہ ہو گا۔