بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی دیے جانے پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی طرف سے بھی نظامی کی سزائے موت پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
نظامی کو 1971ء کی جنگ میں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے خصوصی ٹربیونل نے سزائے موت سنائی تھی جسے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی برقرار رکھا تھا اور بدھ کو علی الصبح انھیں پھانسی دے دی گئی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان نے ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ بان کی مون کسی بھی حالت میں دی جانے والی سزائے موت کے خلاف ہیں۔
ان کے بقول اس معاملے پر بنگلہ دیش کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی تشویش سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔
مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی پر ان کی جماعت کے سیکڑوں کارکنوں نے بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے اور سخت سکیورٹی کی وجہ سے بعض مقامات پر پولیس سے ان کی جھڑپ کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
پولیس کے مطابق شمال مغربی شہر راجشاہی میں ایسی ہی ایک مڈبھیڑ کے دوران مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو ربڑ کی گولیوں کا استعمال بھی کرنا پڑا۔
ساحلی شہر چٹاگانگ میں بھی جماعت اسلامی اور حکمران جماعت کے حامیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔
بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت کرنے والے ٹربیونل کے حامی کارکنوں اور جنگ میں مارے گئے لوگوں کے رشتے داروں نے نظامی کی پھانسی کا خیر مقدم کیا۔
نظامی 2013ء سے جنگی جرائم کے الزام میں تختہ دار پر چڑھائے گئے حزب مخالف کے پانچویں رہنما تھے۔
بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسدالزمان خان کمال کا کہنا ہے کہ بدھ کو دی جانے والی پھانسی سے ملک کی آزادی کے لیے لڑنے والوں کے سر سے ایک بوجھ اتر گیا۔
"ہم بحیثیت آزادی کے لیے لڑنے والے اسے اطمینان بخش سمجھتے ہیں کہ ایک اور جنگی مجرم کو سزا دے دی گئی۔"
خصوصی ٹربیونل کی کارروائی کی شفافیت پر ملک اور بیرون ملک انسانی حقوق کی تنظیمیں سوال اٹھا چکی ہیں۔