جمعرات کے روز معروف بالی وڈ کے ایک وفد نے ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات کی۔ وفد میں معروف اداکار رنویر سنگھ، رنبیر کپور، ورون دھون اور ہدایتکار کرن جوہر بھی شامل تھے۔
کرن جوہر نے اس بارے میں اپنی ٹوئٹ میں نریندر مودی کو مخاطب کر کے لکھا کہ ’’ہم سب کو ایک بہترین موقع ملا کہ ہم آپ کے ساتھ گفتگو کر سکیں اور دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری کی نمائندگی کر سکیں۔ ہم ساتھ مل کر بدلتے ہوئے ہندوستان میں مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔‘‘
اپنے ’انسٹاگرام‘ اکاؤنٹ پر اس ملاقات کے بارے میں مزید لکھتے ہوئے کرن جوہر نے کہا کہ ایک کمیونٹی کے طور پر ہمیں قوم کی تعمیر میں بہت کام کرنا ہے۔ ہم بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کے نوجوانوں کی بڑی تعداد جب دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری سے ملے گی تو ہم ایک مضبوط طاقت بن سکتے ہیں۔
بالی وڈ کے اداکاروں کی جانب سے اس فوٹو کے بعد سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر پر صارفین تبصرے کر رہے ہیں۔
پاکستانی صحافی، ندیم فاروق پراچہ نے لکھا کہ ’’بالی وڈ کے اداکار 2002 کے گجرات کے ہندو مسلم فسادات پر بننے والی فلم میں اداکاری کریں گے۔ اس فلم کا نام لو ان گجرات ہوگا اور اس میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی آئٹم سانگ کریں گے۔‘‘
ہندوستانی صحافی، سگاریکا گھوس نے لکھا کہ بالی وڈ بھی میڈیا ہے اور اس پر حکومت کا بہت زیادہ غیر روایتی کنٹرول ہے۔ ہندوستان میں جیسے بھگت صحافی ہیں ویسے ہی بھگت اداکار بھی۔ یہاں میریل سٹریپ اور رابرٹ ڈی نیرو نہیں ہیں۔
بنگالی اداکارہ اور سیاستدان، نفیسہ علی سودھی نے اپنے انسٹاگرام اکاونٹ میں لکھا کہ انہیں اس بات پر افسوس ہوا کہ ان کے ساتھی اداکاروں نے مودی جی کے پبلک ریلیشن میں حصہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہندوستان کے تمام باشندوں کے آئینی حقوق کے لئے پریشان ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ وہ گجرات فسادات کے فوراً بعد گجرات گئی تھیں اور وہ کبھی بھی حقیقت کو بھلا نہین سکتیں۔
ٹوئٹر پر صارفین نے رنویر سنگھ کی نریندر مودی کے ساتھ لی گئی ایک فوٹو پر بھی تنقید کی۔
صحافی اور ایڈیٹر امو کنمپلے نے لکھا ہے کہ پچھلے برس ہی نریندر مودی کی پارٹی کے ایک رکن پارلیمنٹ نے رنویر سنگھ کی بیوی، دپیکا پڈکون کا فلم پدماوت کے معاملے پر سر قلم کرنے کی دھمکی دی تھی۔ آج رنویر مودی کے ساتھ تصویر کھنچوا رہے ہیں۔
ایک صارف نے لکھا ہے کہ ’’فلمی اداکار ایک اصل اداکار سے مل رہے ہیں‘‘۔