بھارتی وزیر اعظم مودی نے وزیر داخلہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امیت شاہ کی طرف سے دیے گئے شہریت کے اندراج سے متعلق پارلیمان میں بیان کی تردید کر دی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی نے یہ قدم شہریت کے قانون سے متعلق ملک بھر میں جاری مظاہروں کی شدت کم کرنے کے لیے اٹھایا ہے جس میں کم از کم 21 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ شہریت کے ترمیمی ایکٹ کا مقصد افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان میں ظلم و ستم کے شکار غیر مسلم اقلیتوں کو شہریت دینا ہے جو 2015 سے پہلے فرار ہو کر بھارت پہنچے تھے۔ یہ ایکٹ 11 دسمبر کو باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
تاہم بھارت میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے ساتھ امتیاز پر مبنی ہے اور بھارت کے سیکولر آئین کی نفی کرتا ہے کیونکہ اس میں شہریت کے لئے مذہب کو بنیاد بنایا جا رہا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ شہریت کے اس قانون اور اس کے ساتھ ساتھ مجوزہ شہریت کی قومی رجسٹریشن کے اقدام سے مسلمانوں کا دوسرے درجے کے شہری بن جانے کا خطرہ ہے۔
وزیر اعظم مودی نے اتوار کے روز نئی دہلی میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں بھارت کے مسلمانوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اس قانون سے ان کی حیثیت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو گی۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ ایسے بیان سے وہ بھارت میں جاری احتجاجی مظاہروں کی شدت کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو 2014 میں برسر اقتدارآنے کے بعد سے ان کی قیادت کیلئے سب سے بڑا امتحان ثابت ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ جب انہوں نے یہ قانون متعارف کرایا تو ان کے ذہن میں مذہبی امتیاز نہیں تھا۔
اپنے خطاب میں نریندر مودی نے مزید کہا کہ وہ بھارت کے ایک ارب 30 کروڑ شہریوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک شہریت کی قومی سطح پر رجسٹریشن یعنی این آر سی کے بارے میں کبھی کوئی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔
ان کا یہ بیان وزیر داخلہ امیت شاہ کے اس بیان سے براہ راست متصادم ہے جو انہوں نے گذشتہ ماہ بھارتی پارلیمان کے ایوان زیرین لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے دیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کی حکومت شہریت کی قومی سطح پر رجسٹریشن یعنی این آر سی پر عمل شروع کر رہی ہے۔ اس سال اپریل میں بھی انہوں کہا تھا کہ پہلے شہریت میں تبدیلی کا ایکٹ منظور کیا جائے گا اور اس کے بعد این آر سی پر عمل کیا جائے گا۔
اس سال جون میں نریندر مودی کے دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے فوراً بعد بھارت کے صدر رام ناتھ کووند نے بھی پارلیمان کو بتایا تھا کہ شہریت کی قومی رجسٹریشن حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔
نئی دہلی کی اشوک یونیورسٹی کے پروفیسر نیلنجار سرکار کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت مظاہروں کی شدت کم کرنے کی خاطر لوگوں کو کنفیوز کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’کیا اس بات پر یقین کیا جا سکتا ہے کہ اس قدر اہم معاملے پر امیت شاہ اور نریندر مودی ایک ہی صفحے پر نہیں ہوں گے؟ ایک ایسے معاملے پر جس کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں۔ ‘‘
فی الحال شہریوں کی رجسٹریشن کا عمل شمال مشرقی ریاست آسام میں جاری ہے جہاں یہ سپریم کورٹ کے حکم پر نافذ کیا گیا ہے۔ اس ریاست میں تین کروڑ 30 لاکھ شہریوں نے شہریت سے متعلق دستاویزات پیش کیں۔ تاہم حکام نے ان میں سے 19 لاکھ لوگوں کے کاغذات قبول نہیں کیے اور یوں ان کے نام شہریت کی فہرست سے خارج کر دیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ کئی سو افراد کاغذی طور پر اپنی شہریت ثابت نہ کر سکنے کی بنا پر پہلے سے ہی حراستی مراکز میں قید ہیں۔
نیوز ایجنسی رائٹرز کے مطابق بھارت کے بہت سے مسلمان آسام میں اس قانون کے حوالے سے صورت حال کو ایک مثال قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملک بھر میں ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیے جانے کی توقع ہے۔ تاہم وزیر اعظم مودی کا کہنا ہے کہ ملک گیر سطح پر رجسٹریشن کا کوئی فوری ارادہ نہیں ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں کی طرف سے بھی متعدد شہروں میں شہریت کے نئے قانون اور رجسٹریشن کے حق میں مظاہرے ہوئے ہیں۔