پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا کہنا ہے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو افغانستان کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے اب وقت کا تقاضا ہے کہ امریکہ اور پاکستان اپنے تعلقات کو باہمی مفادات اور تعاون کی بنیاد پر آگے بڑھائیں اور اب پاکستان اور امریکہ کے لیے ایک نئی شروعات کرنے کا ایک حقیقی موقع موجود ہے۔
جمعرات کو واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھینک ٹینک، ولسن سینٹر میں آن لائن گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن، افغانستان کے علاوہ کئی دیگر اہم امور میں آپس میں تعاون کر سکتے ہیں۔
معید یوسف نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کا بنیادی مقصد ایسے ہونا چاہیے کہ دونوں جانب مل کر ایسے تعلقات پر کام کریں جن کا اور کوئی تناظر نہ ہو اور یہ صرف پاکستان اور امریکہ کے ایسے باہمی تعلقات ہوں جو واضح اور حقیقت پسندی پر مبنی ہوں
ان کے بقول پاکستان اب امداد کی بجائے امریکہ کے ساتھ سرمایہ کاری پر مبنی شراکت داری چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان امریکہ تعلقات کو صرف افغانستان میں تناطر میں دیکھا جاتا تھا جس کی وجہ سے تعلقات میں مشکل صورت حال پیدا ہوئی۔
پاکستان کے قومی سلامتی مشیر نے یہ بات ایک ایسے وقت کہی جب امریکہ میں جو بائیڈن انتظامیہ کے لیے بھی افغانستان میں قیام امن کا حصول واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کا ایک معاملے رہے گا تاکہ افغانستان میں بین الافغان مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں ایک ایسا سیاسی تصفیہ ممکن ہو سکے جو پائیدار امن کا پیش خیمہ ثابت ہو تاکہ افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کا عمل امریکہ طالبان معاہدے کے ذریعے ممکن ہو۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ کے دوران بھی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں افغانستان کی اہمیت رہے گی۔
لیکن پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا کہنا ہے کہ اگرچہ افغانستان کا معاملہ اہم رہا ہے لیکن افغان امن عمل میں پیش رفت ہو چکی ہے، اور پاکستان کی کوششوں سے بین الافغان مذاکرات شروع ہو چکے ہیں اور امریکہ نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے۔ ان کے بقول اب افغان امن عمل افغانوں کی قیادت اور سرپرستی میں جاری ہے۔
پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر نے واضح کیا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کے باوجود امریکی سرمایہ کار کمپنیاں پاکستان میں ان کے لیے مخصوص اقتصادی زون میں سرمایہ کاری کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے میں اقتصادی رابطوں کو مضبوط کرنا چاہتا ہے اور چین اور امریکہ بھی اس حوالے سے مشترکہ منصوبوں میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں جس کا دائرہ افغانستان تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک میں مصنوعات بنانے کے مخصوص زون بنائے جا سکتے ہیں، جہاں سے برآمدات کو ٹیکسوں کی چھوٹ کے ساتھ بھیجا جا سکے۔
افغانستان کے حوالے سے معید یوسف نے کہا کہ پاکستان اپنے مغربی ہمسایہ ملک میں امن اور استحکام چاہتا ہے کیونکہ یہ اسلام آباد کے مفاد میں ہے اور یہ افغانستان میں امن اور خطوں کے درمیان تجارتی اور اقتصادی راہ داریاں بنانے میں مددگار ثابت ہو گا۔
معید یوسف نے کہا کہ صدر بائیڈن کے دور صدارت کے آغاز میں امریکہ اور پاکستان کو ایک ایسا موقع میسر ہے کہ وہ ماضی کے مقابلے میں دوطرفہ تعلقات کو بہتر انداز میں استوار کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کے بقول یہ بدقسمتی ہو گی اگر پاکستان امریکہ تعلقات کا محور صرف افغانستان ہی رہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی یہ ایک دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کو افغانستان تناظر میں نہ دیکھا جائے اور پاکستان کی توقع ہو گی جو بائیڈن انتظامیہ کے دوران پاکستان کے ساتھ تعلقات کو افغانستان کے معاملے سے نہ جوڑا جائے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ آنے کے بعد پاکستان کے لیے یہ واضح کرنا ضروری تھا کہ اب پاکستان کو افغانستان سے ہٹا کر اب پاکستان اور امریکہ کو صرف باہمی تعلقات کے حوالے سے دیکھا جائے اور مستقبل میں پاکستان امریکہ تعلقات کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے اور کن شعبوں میں پاکستان اور امریکہ ملک کر کام کر سکتے ہیں۔ ان کے بقول یقیناً افغانستان کا معاملہ اہم رہے گا لیکن پاکستان کو صرف افغانستان کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔
نجم رفیق کے بقول پاکستان کی یہ توقع ہے کہ جوبائیڈن پاکستان کے ساتھ افغانستان کے علاوہ بھی کئی امور ہیں جن میں دونوں ممالک آپس میں تعاون کر سکتے ہیں۔
افغان امور کے تجزیہ کار رحیم یوسفز ئی کا کہنا ہے کہ جب تک افغانستان کا تنازع جاری رہتا ہے شاید یہ ممکن نہ ہو۔ اگرچہ پاکستان کی یہ کوشش رہے گی کہ امریکہ پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی کو افغانستان سے الگ رکھے لیکن ان کے بقول امریکہ اپنی ضروریات اور مفادات کے مطابق فیصلے کرے گا۔
لیکن پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن عمل کے لیے اپنا کردار جاری رکھنے پر تیار ہے۔ ان کے بقول پاکستان اپنے خطے میں کسی قسم کے تشدد اور دہشت گردی کے خلاف ہے۔ لیکن ان کے مطابق یہ صورت حال کسی طور قابل قبول نہیں ہے کہ جہاں یہ خیال کیا جائے کہ پاکستان کے پاس تمام ممکنہ مسائل کا حل ہے اور اسے تمام مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔
اگرچہ بعض مبصرین کی رائے ہے کہ افغانستان کا معاملہ حل ہونے کے بعد شاید پاکستان کی اہمیت کم ہو جائے لیکن تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ خطے کا ایک اہم ملک ہونے کے ناطے امریکہ پاکستان کو کلی طور پر نظر انداز نہیں کر سکے گا۔
رحیم اللہ کے بقول کے اگر بھارت ایک بڑا ملک ہے لیکن پاکستان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے اور چین کے حوالے سے بھی پاکستان کا اہم کردار ہے۔ اور اس وجہ سے پاکستان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے لیکن ان کے بقول یہ بات مدنظر رکھنے کی ضرورت ہو گی کہ امریکہ اپنے مفادات میں ہی فیصلے کرے گا۔
پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا کہنا ہے کہ پاکستان اب دنیا کو فوجی اڈے فراہم کرنے کی بجائے اقتصادی زون فراہم کرنے کے لیے تیار ہے جہاں عالمی اقتصادی مفادات کو مدنظر رکھا جائے گا۔ پاکستان کے چین اور امریکہ سے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے معید یوسف نے واضح کیا کہ پاک ستان کسی ایک یا دوسرے کیمپ میں جانے کی سیاست پر ہرگز یقین نہیں رکھتا۔ان کے بقول "ہم کیمپوں کی سیاست نہیں کر رہے۔ ایسا کرنا ہمارے مفاد میں نہیں اور نہ ہی ایسا کرنا کوئی سمجھداری کی بات ہے۔
معید یوسف نے کہا کہ نہ ہی کسی ملک نے پاکستان کو ایسا کرنے کے لیے کہا ہے۔ بلکہ ان کے بقول پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو چین اور امریکہ کو خطے میں ان کے باہمی مفادات کے حامل معاملات میں انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔