پاکستان کرکٹ ٹیم کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بہت سے ایسے کھلاڑی ملیں گے جن کی انفرادی کارکردگی کی بدولت پاکستان نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ ٹیسٹ کرکٹر حنیف محمد کے 337 رنز ہوں، یونس خان کے 313 یا پھر اظہر علی کے ناقابلِ شکست 302۔ پاکستانی بلے بازوں نے کئی ریکارڈ اننگز کھیلی ہیں جو شائقین کو آج بھی یاد ہیں۔
پاکستان ٹیسٹ کرکٹ کی 69 سالہ تاریخ میں صرف سات ایسے وکٹ کیپر آئے ہیں جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں سینچری بنائی۔
حال ہی میں محمد رضوان کی جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ میں سینچری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ انٹرینشنل کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں سینچری بنانے والے پاکستان کے پہلے اور نیوزی لینڈ کے وکٹ کیپر برینڈن مکلم کے بعد دنیا کے دوسرے وکٹ کیپر بن گئے ہیں۔
اس فہرست میں نہ آسٹریلیا کے ایڈم گلکرسٹ ہیں، نہ سری لنکا کے کمار سنگاکارا، نہ جنوبی افریقہ کے اے بی ڈی ویلیئرز اور نہ ہی بھارتی وکٹ کیپر مہندرا سنگھ دھونی!
پاکستان کرکٹ ٹیم میں جب پاور ہٹرز کی بات ہوتی ہے شاہد آفریدی، عبدالرزاق اور محمد حفیظ کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن سات چھکوں کا قومی ریکارڈ اپنے نام کرنے والے بلے باز کوئی اور نہیں بلکہ وکٹ کیپر محمد رضوان بن گئے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں جہاں انہوں نے شاندار سینچری اسکور کی۔ وہیں انہوں نے ایک دو نہیں، بلکہ سات چھکے مار کر محمد حفیظ اور احمد شہزاد کا مشترکہ ریکارڈ بھی پیروں تلے روند ڈالا ہے۔
اٹھائیس سالہ رضوان نے جنوبی افریقہ کے خلاف بغیر آؤٹ ہوئے 64 گیندوں پر 104 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیلی جس میں سات چھکے اور چھ چوکے بھی شامل تھے۔
پاکستان کے سات سینچری بنانے والے وکٹ کیپرز کون ہیں؟
پاکستان کرکٹ کی جہاں وسیم باری جیسے قابلِ بھروسہ وکٹ کیپرز نے تقریباً دو دہائیوں تک خدمت کی وہیں کچھ وکٹ کیپر آئے اور چلے گئے۔ لیکن اپنی بیٹنگ کی وجہ سے نام کما گئے۔
سن 1980 میں جاوید میانداد نے تسلیم عارف کو پہلے بحیثیت بیٹسمین وکٹ کیپر آزمایا اور پھر چند میچز میں ایک وکٹ کیپر بیٹسمین کے طور پر کھلایا، تو انہوں نے 62 رنز کی اوسط سے رنز اسکور کر کے سب کو حیران کر دیا۔
مجموعی طور پر اپنے تیسرے اور بحیثیت وکٹ کیپر دوسرے ہی میچ میں آسٹریلیا کے خلاف 210 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیل کر انہوں نے ریکارڈ بک میں جگہ بنائی۔ پاکستان کی جانب سے کسی بھی وکٹ کیپر کا یہ سب سے بڑا انفرادی اسکور ہے جو چالیس سال گزرنے کے باوجود آج بھی قائم ہے۔
تسلیم عارف سے قبل یہ ریکارڈ پاکستان کے مایہ ناز وکٹ کیپر بیٹسمین امتیاز احمد کے پاس تھا جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے لیے تین سینچریاں اسکور کیں۔ ان کا سب سے زیادہ اسکور 209 رنز تھا جو اس وقت کے لحاظ سے ایک بڑا اسکور مانا جاتا تھا۔
امتیاز احمد نے 41 ٹیسٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی اور دو ہزار سے زائد رنز اسکور کیے۔ سابق کپتان سرفراز احمد نے ان کے مقابلے میں 49 ٹیسٹ کھیلے اور تین ہی سینچریاں اسکور کیں۔ لیکن خراب فارم اور فٹنس کی وجہ سے اُن کی جگہ اب محمد رضوان تینوں فارمیٹس میں پاکستان کے نمبر ون وکٹ کیپر ہیں۔
سابق کپتان راشد لطیف کی بیٹنگ سے سب ہی واقف ہیں۔ ٹیسٹ ڈیبیو پر نصف سینچری بنانے والے اور متعدد میچز میں اپنی حاضر دماغی سے پاکستان کو فتح دلانے والے وکٹ کیپر نے ٹیسٹ کرکٹ میں صرف ایک سینچری اسکور کی۔
راشد لطیف کے برعکس معین خان نے پاکستان کے لیے چار ٹیسٹ سینچریاں اسکور کیں، جو کہ کامران اکمل کی آمد سے قبل ایک ریکارڈ تھا۔
کامران اکمل، جن کا شمار پاکستان کے اچھے وکٹ کیپرز میں تو نہیں ہوتا۔ لیکن وکٹ کیپر بیٹسمین کی حیثیت سے وہ سب سے آگے ہیں۔ انہوں نے چھ ٹیسٹ سینچریاں اسکور کر کے پاکستان کو کئی میچز میں یقینی شکست سے بچایا جب کہ دو ٹیسٹ میچز میں ان کی سینچریوں نے پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار بھی کیا۔
جنوبی افریقہ کے خلاف راولپنڈی ٹیسٹ میں محمد رضوان کی ٹیسٹ سینچری کی بدولت نہ صرف وہ ان سات مایہ ناز کھلاڑیوں کی فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ بلکہ انہوں نے ایک اور ریکارڈ پر نگاہیں مرکوز کرلی ہیں۔ جس کی امید ان کے علاوہ شاید کسی اور کو نہیں تھی۔
ون ڈے میں پاکستان کی جانب سے کس وکٹ کیپر نے سنچری بنائی؟
گزشتہ ہفتے تک پاکستان کی جانب سے صرف تین وکٹ کیپرز کامران اکمل، عمر اکمل اور سرفراز احمد نے ون ڈے کرکٹ میں سینچریاں اسکور کی ہوئی تھیں۔ لیکن محمد رضوان نے ایک ہی ہفتے میں نہ صرف ٹیسٹ سینچری کلب میں جگہ بنائی، بلکہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں بھی تین کا ہندسہ عبور کر کے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔
اس سے قبل مارچ 2019 میں وہ آسٹریلیا کے خلاف پانچ میچز کی سیریز کے دو میچز میں سینچریاں بنا کر ون ڈے انٹرنیشنل میں سو کا ہندسہ عبور کر چکے تھے۔
سب سے زیادہ ون ڈے سینچریوں کا ریکارڈ اب بھی کامران اکمل کے پاس ہے جنہوں نے پاکستان کے لیے پانچ ون ڈے انٹرنیشنل سینچریاں اسکور کر رکھی ہیں۔
سرفراز احمد بھی ون ڈے کرکٹ میں دو سینچریوں کے ساتھ اس فہرست میں شامل ہیں جس میں معین خان، راشد لطیف اور سلیم یوسف جیسے منجھے ہوئے وکٹ کیپرز شامل نہ ہو سکے۔
ویسے تو کامران اکمل کے چھوٹے بھائی عمر اکمل کی بھی ون ڈے میں دو سینچریاں ہیں۔ لیکن صرف ایک انہوں نے بحیثیت وکٹ کیپر اسکور کی، وہ بھی افغانستان کے خلاف 2014 میں، جب سرفراز احمد ٹیم کا مستقل حصہ نہیں بنے تھے۔
محمد رضوان سے قبل اوپنر احمد شہزاد وہ واحد پاکستانی بلے باز تھے جنہوں نے تینوں فارمیٹس میں پاکستان کی جانب سے سینچریاں اسکور کی تھیں۔
سن 2009 میں اپنا انٹرنیشنل ڈیبیو کرنے والے بلے باز نے ون ڈے انٹرنیشنل میں چھ، ٹیسٹ کرکٹ میں تین اور ٹی ٹوئنٹی میں ایک سینچری اسکور کر کے ریکارڈ بک میں جگہ تو بنائی لیکن مسلسل خراب کارکردگی کی وجہ سے اُنہیں چیمپیٔنز ٹرافی 2017 کے بعد ٹیم سے بے دخل کردیا گیا۔
احمد شہزاد نے 2019 میں کم بیک کی کوشش تو کی لیکن ناکامیوں کی وجہ سے اب وہ فرسٹ کلاس اور پاکستان سپر لیگ تک ہی محدود ہیں۔
کئی سال تک اکیلے تینوں فارمیٹس کی فہرست میں واحد پاکستانی ہونے کا اعزاز رکھنے والے احمد شہزاد کو اب محمد رضوان کی شکل میں ایک ایسا پارٹنر مل گیا ہے جو رنز بھی بناتا ہے اور ٹیم کا مستقل حصہ بھی ہے۔
محمد رضوان نے رواں ماہ پہلے جنوبی افریقہ کے خلاف پنڈی ٹیسٹ میں میچ وننگ سینچری اسکور کی اور اس کے بعد جمعرات کو پروٹیز کے خلاف ہی اپنی پہلی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سنچری داغ دی۔ اس طرح نہ صرف انہوں نے احمد شہزاد کا اکیلا راج ختم کیا بلکہ پاکستان کے لیے ایسا کرنے والے پہلے وکٹ کیپر بھی بن گئے۔
ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں 100 کا ہندسہ کن وکٹ کیپرز نے عبور کیا؟
دنیا بھر میں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کی مقبولیت میں جہاں ٹیسٹ اور ون ڈے اسٹیٹس رکھنے والی ٹیموں کا ہاتھ ہے۔ وہیں ایسوسی ایٹ ممالک بھی کسی سے پیچھے نہیں۔
اگر ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے نیوزی لینڈ کے وکٹ کیپر برینڈن مکلم، جنوبی افریقہ کے مورنے وین ویک اور پاکستان کے محمد رضوان نے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں سینچری بنائی ہے، تو افغانستان کے محمد شہزاد اور اور سربیا کے لیزلی ڈمبار بھی یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔
افغانستان کو اب ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کی اجازت تو مل چکی ہے لیکن محمد شہزاد نے یہ اسکور 2016 میں اس وقت اسکور کیا تھا جب افغان کرکٹ ٹیم کو ایسوسی ایٹ ٹیم کا درجہ حاصل تھا۔