عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ایک بیان میں یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جیسے جیسے مونکی پوکس سے متعلق نگرانی کا دائرہ بڑھایا جا رہا ہے۔ اس بیماری کے کیسز ایسے ممالک میں بھی سامنے آنے کا امکان ہے جہاں یہ بیماری عام طور پر نہیں پائی جاتی۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہفتے تک 12 ممالک میں 92 مونکی پوکس کے مصدقہ اور 28 غیر مصدقہ کیسز سامنے آچکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ذیلی ایجنسی نے کہا کہ اس بارے میں ہدایات اور رہنمائی جلد ہی سامنے لائی جائے گی کہ ممالک اس بیماری سے کیسے نمٹیں۔
ایجنسی نے اپنے بیان میں کہا کہ دستیاب معلومات کے مطابق ایسے کیسز جن میں علامات ظاہر ہو چکی ہیں، میں انسانوں سے دوسرے انسانوں میں یہ مرض جسمانی طور پر قریب رہنے والوں میں پھیل رہا ہے۔
مونکی پوکس ایک متعدی بیماری ہے جس کی علامات قدرے ہلکی ہوتی ہیں اور یہ وائرس مغربی اور وسطی افریقہ میں عام پایا جاتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار ڈیوڈ ہیمین جو متعدی بیماریوں کے ماہر ہیں، نے ایک بیان میں کہا کہ اس وقت یہ معلوم ہو رہا ہے کہ یہ بیماری جنسی رابطوں کے ذریعے پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں اس کے نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ڈیوڈ ہیمین کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ماہرین کی ایک بین الاقوامی کمیٹی نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے تبادلۂ خیال کیا ہے جس میں گفتگو ہوئی کہ بیماری کے پھیلنے سے متعلق کس قسم کی تحقیق ہونی چاہیے۔ عوام کو کیا معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہے؟ علامات کے بغیر اس بیماری کا پھیلاؤ کس قدر ہے۔ آبادی کے کون سے حصے اس بیماری کی وجہ سے خطرے میں ہیں اور اس کے پھیلنے کے راستے کون سے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ یہ تبادلۂ خیال کرنے کی وجہ حالات کی فوری ضرورت تھی۔
انہوں نے واضح کیا کہ قریبی رابطہ اس بیماری کو پھیلانے کا اہم ذریعہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے والدین، ہیلتھ ورکر اس بیماری سے خطرے میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے کچھ ممالک نے ان ٹیموں کو جنہوں نے مریضوں کی دیکھ بھال کی ہے، انہیں بھی سمال پوکس کے ٹیکے لگانے شروع کر دیے ہیں۔
اس رپورٹ میں مواد خبر رساں ادارے ’ رائٹرز‘ سے لیا گیا۔