واشنگٹن —
مصر میں فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت کے انتباہ کے باوجود معزول صدر محمد مرسی کے ہزاروں حامیوں نے سابق صدر کی بحالی کے لیے عید کے روز بھی اپنا احتجاج جاری رکھا۔
معزول صدر کے ہزاروں حامی دارالحکومت قاہرہ کے دو مقامات پر گزشتہ پانچ ہفتوں سے مسلسل دھرنے دیے ہوئے ہیں ۔
جمعرات کو قاہرہ کے شمالی مشرقی علاقے کی 'رابعۃ العدویہ' نامی مسجد کے باہر جاری دھرنے کے ہزاروں شرکا نے وہیں نمازِ عید ادا کی۔
اس موقع پر سابق صدر کے مزید ہزاروں حامی بھی قاہرہ اور مصر کے دیگر شہروں سے عید کی نماز ادا کرنے کے لیے 'رابعۃ العدویہ' پہنچے تھے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اس موقع پر 'رابعۃ العدویہ' میں جشن کا سا سماں تھا اور میدان اور اس میں نصب مظاہرین کے خیموں کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔
نمازِ عید کے بعد محمد مرسی کے حامیوں نے جلوس بھی نکالا جس سے معزول صدر کی اہلیہ نجلہ محمود نے خطاب کیا۔
مصر کی فوج کی جانب سے جولائی کے اوائل میں صدر مرسی کا تختہ الٹنے کے بعد سابق خاتونِ اول پہلی بار منظرِ عام پر آئی ہیں جن کا جلوس کے ہزاروں شرکا نے خیرمقدمی نعروں سے زبردست استقبال کیا۔
اپنے خطاب میں سابق خاتونِ اول نے کہا کہ ان کے لیے اس مشکل وقت میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا بہت مشکل ہے لیکن انہیں یقین ہے کہ ان کے شوہر [اقتدار میں] ضرور واپس آئیں گے۔
محمد مرسی تین جولائی کی فوجی بغاوت کے بعد سے نامعلوم مقام پر فوجی حکام کی تحویل میں ہیں اور گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے کے دوران میں ان تک صرف چند غیر ملکی سفارت کاروں کو ہی رسائی دی گئی ہے۔
اپنے خطاب میں نجلہ محمود نے اپنے شوہر کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی برطرفی کے خلاف احتجاجی تحریک چلا کر مصر کے عوام نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اسلام پسند ہیں۔
محمد مرسی کی جماعت 'اخوان المسلمون' نے فوجی بغاوت اور فوج کی حمایت سے بننے والی عبوری حکومت کو تسلیم نہ کرنے اور محمد مرسی کی بحالی تک ملک گیر احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
مصر کی عبوری حکومت حالیہ دنوں میں کئی بار معزول صدر کے حامیوں کو اپنا احتجاج ختم نہ کرنے کی صورت میں "پولیس کاروائی" کی دھمکی دے چکی ہے جسے مظاہرین اور اخوان کی قیادت مسترد کرچکے ہیں۔
مصر کے عبوری صدر عدلی منصور نے بدھ کو اپنے ایک غیر متوقع بیان میں کہا تھا کہ مصر میں سیاسی بحران کے حل کے لیے جاری بین الاقوامی سفارتی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔
انہوں نے اپنے بیان میں معزول صدر کے حامیوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ فوری طور پر اپنا احتجاج ختم کرکے دھرنوں کے مقامات سے واپس چلے جائیں۔
سفارتی کوششوں کی ناکامی کے سرکاری اعلان کے بعد امریکہ اور یورپی یونین کے سفارتی وفود بھی جمعرات کو قاہرہ سے واپس چلے گئے ہیں۔ ان سفارتی کوششوں میں مغربی سفارت کاروں کو قطر اور متحدہ عرب امارات کی مدد بھی حاصل تھی۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران کیتھرین ایشٹن نے مصر کی صورتِ حال پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بحران کا حل تلاش نہ کیے جانے کی صورت میں مزید قتل و غار ت کا خدشہ ہے۔
بدھ کی شب جاری کیے جانے والے اپنے ایک مشترکہ بیان میں دونوں رہنمائوں نے کہا کہ تنازع کے فریقین کو باہمی رابطوں میں موجود "خطرناک تعطل" ختم کرکے اعتماد کی بحالی کی کوششیں کرنی ہوں گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مفاہمتی عمل کا آغاز کرنے کی زیادہ ذمہ داری مصر کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
لیکن قاہرہ کے دورے پر آنے والے نیدرلینڈز کے وزیرِ خارجہ فرینس تیمرمینز نے کہا ہے کہ مصر کے نئے حکمران 'اخوان المسلمون' کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ نہیں۔
'رائٹرز' کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے جناب تیمرمینز نے کہا کہ مصر کے حکمرانوں کو بالآخر اخوان کے ساتھ بات کرنا ہوگی اور وہ جتنا جلد ایسا کرلیں اتناہی بہتر ہوگا۔
معزول صدر کے ہزاروں حامی دارالحکومت قاہرہ کے دو مقامات پر گزشتہ پانچ ہفتوں سے مسلسل دھرنے دیے ہوئے ہیں ۔
جمعرات کو قاہرہ کے شمالی مشرقی علاقے کی 'رابعۃ العدویہ' نامی مسجد کے باہر جاری دھرنے کے ہزاروں شرکا نے وہیں نمازِ عید ادا کی۔
اس موقع پر سابق صدر کے مزید ہزاروں حامی بھی قاہرہ اور مصر کے دیگر شہروں سے عید کی نماز ادا کرنے کے لیے 'رابعۃ العدویہ' پہنچے تھے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اس موقع پر 'رابعۃ العدویہ' میں جشن کا سا سماں تھا اور میدان اور اس میں نصب مظاہرین کے خیموں کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔
نمازِ عید کے بعد محمد مرسی کے حامیوں نے جلوس بھی نکالا جس سے معزول صدر کی اہلیہ نجلہ محمود نے خطاب کیا۔
مصر کی فوج کی جانب سے جولائی کے اوائل میں صدر مرسی کا تختہ الٹنے کے بعد سابق خاتونِ اول پہلی بار منظرِ عام پر آئی ہیں جن کا جلوس کے ہزاروں شرکا نے خیرمقدمی نعروں سے زبردست استقبال کیا۔
اپنے خطاب میں سابق خاتونِ اول نے کہا کہ ان کے لیے اس مشکل وقت میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا بہت مشکل ہے لیکن انہیں یقین ہے کہ ان کے شوہر [اقتدار میں] ضرور واپس آئیں گے۔
محمد مرسی تین جولائی کی فوجی بغاوت کے بعد سے نامعلوم مقام پر فوجی حکام کی تحویل میں ہیں اور گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے کے دوران میں ان تک صرف چند غیر ملکی سفارت کاروں کو ہی رسائی دی گئی ہے۔
اپنے خطاب میں نجلہ محمود نے اپنے شوہر کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی برطرفی کے خلاف احتجاجی تحریک چلا کر مصر کے عوام نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اسلام پسند ہیں۔
محمد مرسی کی جماعت 'اخوان المسلمون' نے فوجی بغاوت اور فوج کی حمایت سے بننے والی عبوری حکومت کو تسلیم نہ کرنے اور محمد مرسی کی بحالی تک ملک گیر احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
مصر کی عبوری حکومت حالیہ دنوں میں کئی بار معزول صدر کے حامیوں کو اپنا احتجاج ختم نہ کرنے کی صورت میں "پولیس کاروائی" کی دھمکی دے چکی ہے جسے مظاہرین اور اخوان کی قیادت مسترد کرچکے ہیں۔
مصر کے عبوری صدر عدلی منصور نے بدھ کو اپنے ایک غیر متوقع بیان میں کہا تھا کہ مصر میں سیاسی بحران کے حل کے لیے جاری بین الاقوامی سفارتی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔
انہوں نے اپنے بیان میں معزول صدر کے حامیوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ فوری طور پر اپنا احتجاج ختم کرکے دھرنوں کے مقامات سے واپس چلے جائیں۔
سفارتی کوششوں کی ناکامی کے سرکاری اعلان کے بعد امریکہ اور یورپی یونین کے سفارتی وفود بھی جمعرات کو قاہرہ سے واپس چلے گئے ہیں۔ ان سفارتی کوششوں میں مغربی سفارت کاروں کو قطر اور متحدہ عرب امارات کی مدد بھی حاصل تھی۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران کیتھرین ایشٹن نے مصر کی صورتِ حال پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بحران کا حل تلاش نہ کیے جانے کی صورت میں مزید قتل و غار ت کا خدشہ ہے۔
بدھ کی شب جاری کیے جانے والے اپنے ایک مشترکہ بیان میں دونوں رہنمائوں نے کہا کہ تنازع کے فریقین کو باہمی رابطوں میں موجود "خطرناک تعطل" ختم کرکے اعتماد کی بحالی کی کوششیں کرنی ہوں گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مفاہمتی عمل کا آغاز کرنے کی زیادہ ذمہ داری مصر کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
لیکن قاہرہ کے دورے پر آنے والے نیدرلینڈز کے وزیرِ خارجہ فرینس تیمرمینز نے کہا ہے کہ مصر کے نئے حکمران 'اخوان المسلمون' کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ نہیں۔
'رائٹرز' کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے جناب تیمرمینز نے کہا کہ مصر کے حکمرانوں کو بالآخر اخوان کے ساتھ بات کرنا ہوگی اور وہ جتنا جلد ایسا کرلیں اتناہی بہتر ہوگا۔