ایک ماہ قبل مشرقی موصل تک رسائی ممکن ہوئی۔ اور، حالیہ دِنوں ہم پہلی بار ’مائی بیوٹیفل لیڈی‘ نامی ریستوران تک جا پائے۔
ڈھائی برس تک داعش کے شدت پسندوں نے وہاں قبضہ جمائے رکھا، جس دوران کئی ماہ تک سڑکوں پر لڑائی اور بم حملے ہوتے رہے، پھر وہ لمحہ آیا کہ صارفین اور عملے کو اس بات کی خوشی ہوئی کہ زندگی معمول آ رہی ہے۔
یہ موصل کا ایک انتہائی معروف ریستوران ہے، جو دوبارہ کھل چکا ہے۔ ایک طرح سے یوں لگا جیسے موصل نے ایک بار پھر اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔
ایک ہفتہ قبل علاقے کے دیگر کاروباری ادارے بھی دوبارہ کھلے، اور عراقی جنرلوں اور اُن کے اہل کاروں کو یہ مقام بھانے لگا۔ جب مشرقی موصل کے علاقے کو واگزار کرالیا گیا اور سکیورٹی یقینی ہوئی، تو میں بھی ’مائی بیوٹیفل لیڈی‘ گیا، جہاں لوگوں کی ایک پلٹن اُمنڈ آئی تھی۔ ایک جنرل داعش کے جیل خانوں، بم فیکٹریوں کا معائنہ کر رہا تھا اور اُن عمارات کو دیکھ رہا تھا جہاں شدت پسند رہا کرتے تھے۔حال ہی میں واگزار کرائے گئے علاقے میں، صحافی ’ہمویز‘ کے پیچھے پیچھے جار رہے تھے، جسے فتح کا ایک جشن خیال کیا جا رہا تھا۔
چند ہی روز بعد، دولت اسلامیہ کو مشرقی موصل سے مکمل طور پر باہر دکھیل دیا گیا تھا اور عراقی افواج نے دریائے دجلہ کے مشرقی علاقے کے پار مکمل قبضے کا اعلان کیا۔ دریا کے قریب والے مضافات میں بم حملے، گولہ باری اور گھات لگا کر فائرنگ کے واقعات کبھی بھی رُکے نہیں؛ اور شدت پسند دوسری جانب پہنچنے کی حرفت سے کبھی باز نہیں آئے۔
تاہم، گذشتہ ہفتے تک یہ تاثر برقرار رہا کہ داعش کے شدت پسند مشرقی موصل سے باہر نکالے جا چکے ہیں۔
کیا یہ محض نظر کا دھوکہ ہے؟ جمعے کے روز متعدد حملے ہوئے جن سے مقامی لوگوں کی یہ بات کہ یہ نظر کا دھوکہ بھی ہو سکتا ہے، درست ثابت ہوئی۔ اُس روز دوپہر کے کھانے کے وقت ’مائی بیوٹیفل لیڈی‘ کو بم کا نشانہ بنایا گیا، جب دو خودکش بم حملہ آوروں نے جسم سے بندھی آتشیں جیکٹ کو دھماکے سے اُڑا دیا۔ ایک مقامی باشندے کے مطابق، بظاہر سبھی حملوں کا نشانہ ریستوران ہی تھے۔ دوسرے علاقوں کے فوجیوں نے بتایا ہے کہ اُنھوں نے پیدل چلتے ہوئے ایک خودکش بم حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کیا، جب کہ ایک کار میں سوار دوسرے شدت پسند کو ہدف بنایا گیا۔ اُنھوں نے بتایا کہ دونوں شدت پسند دھماکے میں ہلاک ہوئے۔
اخباری اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ بغداد اور دیگر علاقوں میں کیے گئے حملوں کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک ہوئے۔ لیکن، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف ریستوران ہی میں 10 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ بم حملے کے دو روز بعد، ریستوران کا عملہ پھر سے صفائی کرتا دیکھا گیا، جب کہ اُنھیں دوبارہ لوگوں کے آنے کی امید کم ہی ہے۔
ہلاک ہونے والوں میں، ریستوران کا مالک اور اُن کے کم از کم دو بچے بھی شامل تھے۔