عراقی اور کرد فورسز نے کہا ہے کہ انہوں نے موصل کے مضافات میں درجنوں دیہاتوں کو واپس لے لیا ہے اور وہ عراق کے دوسرے سب سے بڑے شہر کو اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں سے خالی کرانے کے لیے اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
داعش کے خلاف یہ تازہ فوجی مہم، جس کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا، اور جسے امریکی قیادت کی فورسز کی فضائی مدد حاصل ہے، آج منگل کو دوسرے روز بھی جاری رہی۔ اس لڑائی میں سنی اور شیعہ ملیشیاء گروپ حصہ لے رہے ہیں۔
صدر براک اوباما نے منگل کے روز واشنگٹن میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موصل واپس لینے کی جنگ ایک مشکل جنگ ہوگی ، لیکن انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ اسلامک اسٹیٹ کو اس شہر میں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکی صدر نے کہا کہ ممکنہ طور پر دس لاکھ لوگ اس شہر میں ابھی تک رہ رہے ہیں ، اس لیے وہاں سے داعش کو نکا ل باہر کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ان لوگوں کی حفاظت اور انسانی ہمدردی پر اپنی توجہ مرکوز کرنا ہو گی اور یہ چیز ہماری دونوں حکومتوں کی اولین ترجیح ہے۔
لڑائیاں موصل کے مضافاتی علاقوں میں ہو رہی ہیں اور تینوں محاذوں پر مختلف رفتار سے پیش قدمی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل میں داعش کے جنگجوؤں کے خلاف عراقی فوج اور کرد پیش مرگہ فورسز کی پیش قدمی جاری ہے۔
امریکی وزارت دفاع پینٹاگان کے پریس سیکرٹری پیٹر کک نے صحافیوں کو بتایا کہ پیش قدمی سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ عراقی فورسز کو اب تک اہداف کے حصول میں توقع سے زیادہ کامیابی ملی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ کارروائی عراقی فورسز کی ’’منصوبہ بندی کے مطابق جاری ہے۔‘‘
زمینی فورسز کو امریکہ کی زیر قیادت قائم اتحاد کی فضائی مدد بھی حاصل ہے۔
موصل عراق کا دوسرا بڑا شہر ہے اور پیر کو عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی نے شہر کو داعش سے آزاد کروانے کے لیے باقاعدہ آپریشن کا آغاز کیا تھا۔
اس آپریشن میں 30 ہزار عراقی فوجی جب کہ کرد پیش مرگہ کے چار ہزار جنگجو حصہ لے رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق توقع سے زیادہ تیزی سے سکیورٹی فورسز نے موصل کی طرف پیش قدمی کی ہے اور کئی دیہات داعش کے جنگجوؤں سے خالی کروا لیے گئے۔
تاہم بعض علاقوں میں ’داعش‘ کے جنگجوؤں کی طرف سے سکیورٹی فورسز کو مزاحمت کا سامنا ہے۔
منصوبے کے مطابق موصل میں کارروائی کرنے والی فورسز کو امریکی اسپیشل فورسز کے 200 اہلکاروں کی مدد بھی حاصل ہے، جن میں سے کچھ اگلے محاذ پر لڑنے والوں کے پیچھے تعینات ہیں۔
امریکی دفاعی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اُن کے فوجیوں کا کردار مشاورت اور معاونت کا ہے اور کچھ فضائی مدد کو بلانے کا کام کر سکتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جوش ارنسٹ نے پیر کو کہا کہ یہ کارروائی ایک ’’اہم امتحان ہے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’داعش کو شہر سے بے دخل کرنا، ایک اہم اسٹرایٹیجک پیش رفت ہو گی۔‘‘
اُدھر ایک بیان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے کہا ہے کہ جوں جوں جنگ آگے بڑھے گی موصل سے 10 لاکھ تک عراقی شہری شام اور ترقی کی جانب نقل مکانی کر سکتے ہیں۔