اگرچہ حکمراں اتحاد میں شامل ہونے کےباوجود سندھ کی بااثر جماعت متحدہ قومی موومنٹ، تحریک منہاج القرآن کے 14 جنوری کو ہونے والے لانگ مارچ میں شرکت کا اعلان کرچکی ہے اور دونوں جماعتوں نے آگے بھی ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا ہے، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان بہت واضح فرق ہے۔
لیکن ،اِسے حسن ِاتفاق کہئیے یا پھر پاکستان کے سیاسی نظام کی خوبی کہ مختلف سوچ ، افکار اور مختلف منشور رکھنے والی سیاسی جماعتیں بھی ایک پلیٹ فارم پر کھڑی نظر آتی ہیں۔
تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے 23 دسمبر کو لاہور میں ایک وسیع جلسہٴ عام منعقد کیا تو ایم کیوایم کا 50 رکنی وفدبھی الطاف حسین کی خصوصی ہدایت پر ڈاکٹر طاہرالقادری کے اجتماع میں شریک ہوا۔بعد ازاں ،الطاف حسین نے ڈاکٹر طاہرا لقادری کو کامیاب جلسے پر مبارکباد بھی دی ۔
یہی نہیں، بلکہ ایم کیو ایم کی جانب سےتحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کو ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر آنے کی دعوت بھی دی گئی جسے تحریک منہاج القرآن نے قبول کر لیا۔اس دعوت کے نتیجے میں 29 دسمبر کو تحریک منہاج القرآن کے ایک وفد نے نائن زیرو کا دورہ کیا اور دونوں جماعتوں کے درمیان روابط مزید بہتر بنانے پراتفاق ہوا۔
اگر دونوں جماعتوں کے منشور پر نظر ڈالی جائے تو متحدہ قومی موومنٹ اپنے منشورکے اعتبار سے ایک لبرل سیکولر جماعت ہے جبکہ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین متعدد اجتماعات اور خطابات میں اس حوالے سے بیانات بھی دے چکے ہیں کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سیکولر شخصیت کے مالک تھے اور وہ پاکستان کو ایک لبرل سیکولر ملک بنانا چاہتے تھے۔ لہذا ، ان کی جماعت محمد علی جناح کے اس مشن کو ضرور پورا کرے گی ۔
متحدہ قومی موومنٹ طالبان کی سخت مخالفت کرتی آئی ہے اور ماضی میں اس کی جانب سے طالبان کے خلاف عوامی ریفرنڈم کا بھی اعلان ہوچکا ہے ۔ گوکہ ریفرنڈم کوعملی جامہ نہ پہنایا جاسکا لیکن ایم کیو ایم اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے کہ وہ پاکستان کو طالبائزیشن سے نجات دلا کر رہے گی۔
ایم کیو ایم کے مقابلے میں طاہر القادری کی بات کریں تو ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کو فلاحی اسلامی مملکت بنانا چاہتے ہیں۔ وہ پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے حامی ہیں ۔
مذکورہ اختلافات کے ساتھ ساتھ دونوں جماعتوں کے درمیان جو قدر مشترک ہیں وہ یہ ہیں کہ دونوں جماعتیں پاکستان میں جمہوریت دیکھنا چاہتی ہیں ، دونوں ملک سے موروثی سیاست کا خاتمہ چاہتی ہیں،ملک کو جاگیر داروں اور وڈیرو ں سے نجات دلانا چاہتی ہیں اور دونوں جماعتوں کا مو قف ہے کہ اقتدار حقیقی عوامی نمائندوں کو دیا جائے۔
لیکن ،اِسے حسن ِاتفاق کہئیے یا پھر پاکستان کے سیاسی نظام کی خوبی کہ مختلف سوچ ، افکار اور مختلف منشور رکھنے والی سیاسی جماعتیں بھی ایک پلیٹ فارم پر کھڑی نظر آتی ہیں۔
تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے 23 دسمبر کو لاہور میں ایک وسیع جلسہٴ عام منعقد کیا تو ایم کیوایم کا 50 رکنی وفدبھی الطاف حسین کی خصوصی ہدایت پر ڈاکٹر طاہرالقادری کے اجتماع میں شریک ہوا۔بعد ازاں ،الطاف حسین نے ڈاکٹر طاہرا لقادری کو کامیاب جلسے پر مبارکباد بھی دی ۔
یہی نہیں، بلکہ ایم کیو ایم کی جانب سےتحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کو ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر آنے کی دعوت بھی دی گئی جسے تحریک منہاج القرآن نے قبول کر لیا۔اس دعوت کے نتیجے میں 29 دسمبر کو تحریک منہاج القرآن کے ایک وفد نے نائن زیرو کا دورہ کیا اور دونوں جماعتوں کے درمیان روابط مزید بہتر بنانے پراتفاق ہوا۔
اگر دونوں جماعتوں کے منشور پر نظر ڈالی جائے تو متحدہ قومی موومنٹ اپنے منشورکے اعتبار سے ایک لبرل سیکولر جماعت ہے جبکہ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین متعدد اجتماعات اور خطابات میں اس حوالے سے بیانات بھی دے چکے ہیں کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سیکولر شخصیت کے مالک تھے اور وہ پاکستان کو ایک لبرل سیکولر ملک بنانا چاہتے تھے۔ لہذا ، ان کی جماعت محمد علی جناح کے اس مشن کو ضرور پورا کرے گی ۔
متحدہ قومی موومنٹ طالبان کی سخت مخالفت کرتی آئی ہے اور ماضی میں اس کی جانب سے طالبان کے خلاف عوامی ریفرنڈم کا بھی اعلان ہوچکا ہے ۔ گوکہ ریفرنڈم کوعملی جامہ نہ پہنایا جاسکا لیکن ایم کیو ایم اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے کہ وہ پاکستان کو طالبائزیشن سے نجات دلا کر رہے گی۔
ایم کیو ایم کے مقابلے میں طاہر القادری کی بات کریں تو ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کو فلاحی اسلامی مملکت بنانا چاہتے ہیں۔ وہ پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے حامی ہیں ۔
مذکورہ اختلافات کے ساتھ ساتھ دونوں جماعتوں کے درمیان جو قدر مشترک ہیں وہ یہ ہیں کہ دونوں جماعتیں پاکستان میں جمہوریت دیکھنا چاہتی ہیں ، دونوں ملک سے موروثی سیاست کا خاتمہ چاہتی ہیں،ملک کو جاگیر داروں اور وڈیرو ں سے نجات دلانا چاہتی ہیں اور دونوں جماعتوں کا مو قف ہے کہ اقتدار حقیقی عوامی نمائندوں کو دیا جائے۔