متحدہ قومی موومنٹ (الطاف) نے اس ہفتہ وار تعطیل کے دوران وائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کیا جس میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے ٹیلی فون کے ذریعے خطاب کیا۔
اس مظاہرے کے دوران الطاف حسین کے حامیوں نے کتبے اُٹھا رکھے تھے جن میں ایم کیو ایم کے خلاف حکومت اور آئی ایس آئی کی مبینہ ذیادتیوں کے خلاف احتجاجی نعرے درج تھے۔ یہ مظاہرین مبینہ ریاستی مظالم، الطاف حسین کے بیانات کی نشر و اشاعت پر پابندی، مبینہ ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور ایم کیو ایم کی سرگرمیوں پر پابندیوں کے خلاف شدید نعرے بازی کر رہے تھے۔ انہوں مطالبہ کیا کہ ایم کیو ایم کے سیل کردہ دفاتر بشمول نائن زیرو کو فی الفور کھولا جائے۔
مظاہرین نے امریکی حکومت اور کانگریس کے ارکان سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستانی حکومت کی طرف سے ایم کیو ایم کے خلاف اقدامات کو روکنے میں مدد فراہم کرے۔
اس سلسلے میں جاری کی گئی ایک پریس ریلیز میں دعویٰ کیا گیا کہ مظاہرے میں امریکہ بھر سے ایم کیو ایم کے 22 چیپٹرز نے حصہ لیا۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے مظاہرین سے خطاب کے دوران مہاجر قوم کے کیس کیلئے جدوجہد کرنے پر مظاہرین کی تعریف کی۔
ایم کیو ایم پاکستان کے ڈپٹی کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وائس آف امریکہ اُردو سروس سے خصوصی گفتگو میں وضاحت کی کہ واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے مظاہرے کا ایم کیو ایم پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ مظاہرے میں جو مطالبات پیش کئے گئے ہیں، اُن میں سے متعدد کے بارے میں کیس عدالتوں میں زیر سماعت رہے ہیں۔ خالد محمود صدیقی نے خاص طور پر ایم کیو ایم دفاتر پر پابندی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دفاتر ایم کیو ایم پاکستان ہی ملکیت رہے ہیں اور اُنہیں کھولنے کے بارے میں اُن کی جماعت نے درخواستیں جمع کروائی تھیں۔ اُن میں کچھ دفاتر ایم کیو ایم پاکستان کو واپس کر دئے گئے ہیں اور باقی دفاتر کے سلسلے میں کیس عدالتوں میں چل رہے ہیں۔
اس مظاہرے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خالد محمود صدیقی نے وضاحت کی کہ ایم کیو ایم پاکستان ہی ایک غیر ملکی سیاسی جماعت کے طور پر امریکہ میں رجسٹرڈ ہے۔ لہذا ایم کیو ایم کا نام استعمال کرنے کی قانونی حیثیت بھی صرف ایم کیو ایم پاکستان ہی کے پاس ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ 22 اگست 2016 میں الطاف حسین سے راستے جدا ہونے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان اپنی کسی بھی تشہیر میں موجودہ یا سابق راہنماؤں کی تصاویر شامل نہیں کرتی اور جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کی پالیسی یہی ہے کہ شخصیات اور اُن کی تصاویر کے بجائے اپنے مقاصد کو فوقیت دی جائے۔
پاکستان کو وجود میں آئے 70 برس کا عرصہ گزر چکا ہے اور 1947 میں ہجرت کر کے کراچی اور ملک کے دوسرے شہروں میں آباد ہونے والوں کی اب تیسری نسل یہاں موجود ہے ۔ اس حوالے سے اُن کے خود کو بدستور مہاجر کہلانے کا کیا جواز ہے۔ اس سوال کے جواب میں خالد محمود صدیقی نے کسی دانشور کا قول دہراتے ہوئے کہا کہ آپ کی شناخت وہی ہے جو کوئی دوسرا آپ کو سمجھتا ہو۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ نعرہ ایم کیو ایم نے نہیں لگایا تھا۔ جو لوگ ہجرت کر کے آئے وہ پنجاب، سندھ، بلوچستان یا خیبر پختون خواہ کے لوگ نہیں تھے۔ تاہم جہاں جہاں ہجرت کرنے والے کم تعداد میں گئے، وہ وہاں مقامی لوگوں کے ساتھ گھل مل گئے۔ لیکن سندھ کے بڑے شہروں میں آ کر آباد ہونے والوں کی الگ پہچان قائم رہی جو اب تک موجود ہے۔