کراچی —
متحدہ قومی موومنٹ نے سندھ کی صوبائی حکومت میں پیپلز پارٹی کے ساتھ شامل ہونے یا نہ ہونے سے متعلق عوامی رائے جاننے کے لئے 20جون کو ریفرنڈم کا اعلان کردیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم پورے ملک میں کرایا جائے گا۔
رابطہ کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق ریفرنڈم میں تمام ارکان اسمبلی، خود رابطہ کمیٹی اور جماعت کے تمام کارکن بلاتفریق حصہ لے سکیں گے۔
ریفرنڈم کرانے کا مقصد اس حوالے سے عوامی رائے جاننا ہے کہ آیا ایم کیو ایم حکومت کے ساتھ شریک اقتدار بنے یا نہ بنے۔
ریفرنڈم کرانے کا مقصد اس حوالے سے عوامی رائے جاننا ہے کہ آیا ایم کیو ایم حکومت کے ساتھ شریک اقتدار بنے یا نہ بنے۔
کراچی کے ایک سینئر سیاسی تجزیہ کار اور سیاسیات کے استاد عباس نقوی کا وی او اے سے تبادلہ خیال میں کہنا تھا کہ، ’متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے تعلقات میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران بہت سے اتار چڑھاؤ آتے رہے۔ حال ہی میں ختم ہونے والی پی پی حکومت میں متحدہ ’بازور بازو‘ کبھی اقتدار میں تو کبھی اقتدار سے الگ ہوتی رہی ہے‘۔
اُن کے بقول، دونوں جماعتوں کے درمیان پانچ سال تک روٹھنے اور منانے کا سلسلہ چلتا رہا۔ لیکن، نومنتخب حکومت کا دور شروع ہوتے ہی ایم کیو ایم نے پی پی حکومت سے صوبائی سطح پر دوبارہ مصافحے کے لئے 20 جون کو عوامی ریفرنڈم کرانے کا اعلان کردیا ہے۔ حالانکہ، سب جانتے ہیں کہ اس قسم کے ریفرنڈم کے کیا نتائج نکلتے یا ’نکالے‘ جاتے ہیں۔‘
اُن کے بقول، دونوں جماعتوں کے درمیان پانچ سال تک روٹھنے اور منانے کا سلسلہ چلتا رہا۔ لیکن، نومنتخب حکومت کا دور شروع ہوتے ہی ایم کیو ایم نے پی پی حکومت سے صوبائی سطح پر دوبارہ مصافحے کے لئے 20 جون کو عوامی ریفرنڈم کرانے کا اعلان کردیا ہے۔ حالانکہ، سب جانتے ہیں کہ اس قسم کے ریفرنڈم کے کیا نتائج نکلتے یا ’نکالے‘ جاتے ہیں۔‘
سینئر صحافی اور تجزیہ کار عباس مظہر کا کہنا ہے کہ، ’پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان وہی رشتہ ہے جو محبت اور نفرت کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ رشتہ بھی کوئی سال دو سال پر مبنی نہیں بلکہ 26سال پرانا ہے۔
اُنھوں نے مزید بتایا کہ، ’دونوں جماعتوں نے پہلی دفعہ سنہ 1988 کے الیکشن کے بعد ہاتھ ملایا تھا۔ دوستی کا یہ رشتہ 1989 ءمیں اس وقت ٹوٹا جب پیپلزپارٹی نے ایم کیوایم پر الزام لگایا کہ اس نے سابق وزیر اعظم بینظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں نواز شریف کا ساتھ دیا‘۔۔
اُنھوں نے مزید بتایا کہ، ’دونوں جماعتوں نے پہلی دفعہ سنہ 1988 کے الیکشن کے بعد ہاتھ ملایا تھا۔ دوستی کا یہ رشتہ 1989 ءمیں اس وقت ٹوٹا جب پیپلزپارٹی نے ایم کیوایم پر الزام لگایا کہ اس نے سابق وزیر اعظم بینظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں نواز شریف کا ساتھ دیا‘۔۔
مظہر عباس کے مطابق، ’پیپلزپارٹی کی دوسری مدت کی حکومت (1993 ) کے دوران دونوں جماعتیں دور دور ہی رہیں۔ تاہم، 2008 ءکے الیکشن کے بعد زرداری اور الطاف معاہدہ 5 سال تک قائم رہا‘۔
تاہم، 1990 ءاور 1997 ءمیں ایم کیو ایم کا اتحاد مسلم لیگ ن کے ساتھ بنا۔ لیکن،1992 ء کے فوجی آپریشن کے بعد، ایم کیو ایم اتحاد سے نکل گئی۔ پھر 1998 ءمیں نواز شریف نے دوسرے دور حکومت کے دوران سندھ میں گورنر راج نافذ کر دیا تھا جس کے سبب دونوں میں دوری آگئی تھی۔
سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران دونوں جماعتوں کا اتحاد برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ اب ایک بار پھر سرگرم ہیں۔ اُن کی یہ کوششیں کس حد تک بارآور ثابت ہوں گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ تاہم، اتنا ضرور ہے کہ اب کی بار یہ ساتھ کچھ مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ، ایم کیو ایم حکومت سندھ سے اب بھی کچھ نہ کچھ منوا کر ہی اس کی حمایتی بنے گی۔ ایم کیو ایم اب بھی مشرف دور میں شروع کئے گئے بلدیاتی نظام کی بحالی کے حق میں ہے۔
اتوار کی ملاقاتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پس پردہ سفارتکاری کچھ کام دکھا رہی ہے۔
تاہم، تجزیہ کاروں کی نظر میں، لگتا یوں ہے کہ ایم کیو ایم ابھی وقت لے گی اور اپنے مطالبات کے حوالے سے سندھ حکومت کے جواب کا انتظار کرے گی۔
تاہم، تجزیہ کاروں کی نظر میں، لگتا یوں ہے کہ ایم کیو ایم ابھی وقت لے گی اور اپنے مطالبات کے حوالے سے سندھ حکومت کے جواب کا انتظار کرے گی۔