مصر کا اٹھارہ روزہ انقلاب یوں تو ایک پرامن انقلاب تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان مظاہروں میں روز بروز عوام کی بڑھتی تعداد جب حسنی مبارک کی حکومت کے لیے خطرہ بننا شروع ہوئی تو اس تحریک کو پولیس اور فوج کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی، جنہوں نے مظاہرین پر تشدد کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
جس وقت مصر کے سابق صدر حسنی مبارک نے اپنا اقتدارمصر کی ملٹری کونسل کے حوالے کیا، عوام کا غصہ زوروں پر تھا ور ابھی بھی ہے۔
جس کی ایک جھلک 23 جولائی کو موجودہ ملٹری حکومت اور ان مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں دکھائی دی۔ مظاہرین کوشکایت ہے کہ اصلاحات کا عمل بہت سست ہے۔وہ سابق صدر اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کرپشن اور فورسز کے ذریعے عوام کو قتل کرانے کے مقدمات چلانے پر زور دے رہے ہیں۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ طبعیت کی خرابی کے باعث حسنی مبارک کے خلاف مقدمات شاید ملتوی کر دئیے جائیں۔
مگر ماہرین کے نزدیک ایسا کرنا غلط ہوگا۔ پروفیسر سعد ابراہیم کئی دہائیوں سے مصری معاشرے کے بارے میں لکھتے رہے ہیں۔ اور کئی مرتبہ مبارک حکومت کے خلاف لکھنے پر جیل بھی جا چکے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ حسنی مبارک پر مقدمات چلانا بہت درست ہوگا۔اس سے عوام کے غم و غصے کا ازالہ کیا جاسکے گا۔
مگر پروفیسر ابراہیم کو خدشہ ہے کہ مصر کے موجودہ ملٹری رہنما اپنے سابقہ باس کو کٹہرے میں اور امکانی طور پر پھانسی پر چڑھتا دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔
مصر کے اخبار ڈیلی نیوز ایجبٹ کی ایڈیٹر رانیہ المالکی کا کہنا ہے کہ مصری راہنماؤں کو خطے کی دوسرے آمریت نواز حکومتوں والے ممالک کی جانب سے بھی دباؤ کا سامنا ہے۔ ان میں سے اکثر ممالک کی حکومتوں کے خلاف مصر کی طرز کے مظاہرے کیے جا چکے ہیں۔
مگر تحریر چوک میں مظاہرے کرنے والے افراد انتقام یا کم از کم انصاف پر اصرار کررہے ہیں اور وہ حسنی مبارک کے خلاف تین اگست سے شروع ہونے والی سماعت کواسی نقطہ ِ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔