رسائی کے لنکس

طالبان: امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے باعث افغان جنگ کے خاتمے کے حالات پیدا ہو رہے ہیں


طالبان کے ایک بڑے رہنما نے کہا ہے کہ حال ہی میں ہونے والے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں 'بڑی پیش رفت' ہوئی ہے۔ اور انہیں ’بڑی امید‘ ہے اب صورتحال ایک ایسا رخ اختیار کر رہی ہے جس سے افغانستان میں اٹھارہ سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

افغانستان کی صورتحال سے متعلق اس قسم کی امید کا اظہار طالبان کے ڈپٹی چیف اور قطر میں قائم طالبان کے پولیٹکل دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے جمعرات کو ایک خاص آڈیو پیغام کے ذریعے کیا جسے صحافیوں تک بھی پہنچایا گیا ہے۔

ملا برادر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب دوحا میں دو دن قبل ہی امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات مکمل ہوئے ہیں جو مختلف اوقات میں سولہ دن تک جاری رہے۔ مذاکرات کے بعد دونوں جانب سے ایک ابتدائی معاہدے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے جس کے مطابق اس لڑائی کا حل نکالا جا سکے گا۔

طالبان کے نائب سربراہ ملا برادر کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات نے مستقبل میں ہونے والی بات چیت کے لیے ’بہترین گراونڈ‘ بچھایا ہے جس کی وجہ سے جنگ کا حل تلاش کرنے کے لیے راستہ آسان ہو جائے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ طالبان نے یہ پیشرفت اپنے اصولوں کو توڑے بغیر اور اسلامی شریعہ قانون سے مطابقت رکھتے ہوئے کی ہے۔

ملا برادر نے کہا ’میں ایک ایسے نتیجے کی توقع کر رہا ہوں جس کے مطابق ملک میں اسلامی نظام ہی اعلی نظام سمجھا جائے گا۔ ہمیں آزادی مل جائے گی، غیر ملکی فوج افغانستان سے چلی جائے گی اور میرے ملک کے تمام لوگ بھائیوں کی طرح رہیں گے۔‘

عبدالغنی برادر افغان طالبان کے مشترکہ بانی کے طور پر مشہور ہونے سے پہلے ہمسایہ ملک پاکستان میں تقریباً ایک دہائی تک قید میں رہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں امریکہ کی درخواست پر انہیں رہا کیا گیا تاکہ وہ قطر میں ہونے والے امن عمل کے لیے مذاکرات میں حصہ لے کر معاملات کو تیزی سے آگے بڑھا سکیں۔

افغان طالبان کے ساتھ گزشتہ سال سے شروع ہونے والے ان مذاکرات میں امریکہ کی نمائندگی زلمے خلیل زاد کرتے رہے ہیں جو افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی کے عہدے پر فائض کیے گئے ہیں۔

ملا برادر سے جب افغانستان میں پائی جانے والی اس تشویش پر سوال کیا گیا کہ افغان طالبان کا بنیاد پرست گروہ ملک میں واپس آ گیا تو اس سے علما جہادی لیڈرز اور دیگر بزرگ رہنما ملک چھوڑ کر جا سکتے ہیں یا ان کے خلاف ایک مسلح جدوجہد شروع کر سکتے ہیں تو انہوں نے دبے الفاظ میں کہا کہ طالبان افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آنا چاہ رہے ہیں۔ ’وہ افراد جو ہمیں بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور جو ہمیں دھوکا نہیں دیں گے اور ہم سے دشمنی اختیار نہیں کریں گے ایسے لوگوں کو ہم اپنے بھائی تصور کریں گے۔ ایسے لوگوں کو فکرمند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ تمام افغان افراد مل کر بیٹھیں گے اور طالبان رہنما ہر شخص کے ساتھ رحم سے کام لیں گے اور یہ تمام باتیں باہمی عزت اور تکریم کے ماحول میں انجام پائیں گی۔

منگل کے روز دوہا میں ہونے والے ابتدائی معاہدے میں جس بات کو اہمیت دی گئی ہے وہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ہے مگر یہ اس صورت میں ہو گا جب طالبان کی طرف سے یہ یقین دہانی کروائی جائے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو غیر ملکی دہشت گردوں کے لیے محفوظ ٹھکانہ نہیں بننے دیں گے۔

منگل کو قطر میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اختتام پر افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ’جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامت سے متعلق ہونے والے معاہدے کا مسودہ حتمی شکل اختیار کرے گا، تو اس معاملے میں افغان حکومت کو بھی شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ایسے میں دیگر افغان افراد اور طالبان آپس میں بات چیت کریں گے تاکہ افغانستان کا سیاسی حل نکالا جا سکے اور مستقل اور جامع جنگ بندی عمل میں لائی جا سکے۔

تجزیہ کار خلیل زاد کے اس بیان کو طالبان کو دی جانے والی ایک بڑی رعایت کے طور پر دیکھ رہے ہیں کیونکہ طالبان نے کافی عرصے سے یہ کوشش کی ہے وہ اس وقت تک افغان حکومت اور افغان عوام سے بات چیت نہیں کریں گے جب تک ملک سے غیر ملکی افواج کا انخلا نہیں ہوتا۔

تاہم یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والی بات چیت میں اگر پیش رفت نہ ہو سکی تو طالبان کی جانب سے کابل پر عسکری نوعیت کا قبضہ کیا جا سکتا ہے۔ طالبان کے شدت پسندوں کے پاس پہلے ہی افغانستان کے آدھے سے زیادہ علاقے کا کنٹرول ہے۔

XS
SM
MD
LG