رسائی کے لنکس

افغان طالبان کے امیر ملا منصور کی کراچی میں کروڑوں کی جائیداد: ایف آئی اے


افغان طالبان کے سابق امیر ملا اختر منصور (فائل فوٹو)
افغان طالبان کے سابق امیر ملا اختر منصور (فائل فوٹو)

افغان طالبان کے سابق رہنما ملا اختر منصور کے بارے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کئی رہائشی فلیٹس، مکان اور پلاٹ کے مالک ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

حکام نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ وہ اپنے فرنٹ مین کے ذریعے جائیداد کی خرید و فروخت کے کاروبار سے منسلک تھے۔ ملا اختر منصور 2016 میں صوبہ بلوچستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔

پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ملا اختر منصور نے دو جعلی شناختی کارڈ بھی بنوا رکھے تھے، جس کے ذریعے انہوں نے کراچی ہی میں دو مختلف بینک اکاؤنٹس بھی کھلوانے ہوئے تھے۔

ملا اختر منصور کے ان اکاؤنٹس کے ذریعے پراپرٹی کے کاروبار سے حاصل کی جانے والی رقم استعمال کی جاتی رہی۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق ملا اختر منصور اپنے فرنٹ مین عمار یاسر کے ذریعے شہر میں جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا کرتے تھے۔

حکام نے ملا منصور کی کراچی میں جن 6 غیر منقولہ جائیدادوں کا انکشاف کیا ہے۔ ان میں گلشن معمار میں ایک پلاٹ، گلشن معمار ہی میں ایک مکان، اور شہر کے مختلف علاقوں میں چار فلیٹس شامل ہیں، جن کی مجموعی قیمت کروڑوں روپوں میں ہے۔

ایف آئی اے نے ملا منصور کی یہ تمام غیر منقولہ جائیداد بحق سرکار ضبط کر لی ہے۔

وائس آف امریکہ کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے نے انکشاف کیا ہے کہ سابق طالبان رہنما نے محمد ولی اور گل محمد کے ناموں پر نادرا حکام کو غلط معلومات فراہم کر کے دو جعلی شناختی کارڈ بنوائے تھے۔

واضح رہے کہ ملا منصور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ ایک قرارداد کے تحت دہشت گرد قرار دیا گیا تھا اور ان پر رکن ممالک میں کوئی بھی کاروبار یا دیگر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے سمیت بینک اکاؤنٹس کھلوانے کی ممانعت تھی۔

ملا اختر منصور اور اس کے مبینہ فرنٹ مین عمار یاسر کے خلاف جعل سازی، فراڈ دھوکہ دہی اور دہشت گردی کے لیے رقم جمع کرنے اور منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

حکام اس ضمن میں ملا اختر منصور کا جعلی شناختی کارڈ بنانے والے نادرا کے حکام اور ان بینک افسران کا بھی کھوج لگانے میں مصروف ہیں جنہوں نے بینک اکاونٹس کھولنے میں ان کی معاونت کی۔

واضح رہے کہ ملا اختر منصور طالبان کے اہم اور چوٹی کے رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اور طالبان کی سپریم کمان میں ڈپٹی چیف سمیت کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔

طالبان دور حکومت میں وہ افغانستان کی سول ایوی ایشن کے وزیر تھے۔ انہیں ملا عمر کا انتہائی قریبی ساتھی سمجھا جاتا تھا اور ملا عمر کے بعد وہی طالبان شوریٰ کے سربراہ مقرر کیے گئے تھے۔

ملا اختر منصور کو اُس وقت امریکی ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا جب وہ مئی 2016 میں اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے اور مبینہ طور پر کوئٹہ کی جانب سفر کر رہے تھے۔

XS
SM
MD
LG