رسائی کے لنکس

ممبئی کو 2050 تک جنوبی ایشیا کا پہلا کاربن نیوٹرل شہر بنانے کا منصوبہ


ممبئی
ممبئی

بھارت کے مالیاتی مرکز، ممبئی کو 2050ء تک ایک ایسا شہر بنانے لیے ایک پرعزم ماحولیاتی منصوبہ وضع کیا گیا ہے جہاں کاربن کا اخراج اور استعمال برابر ہوگا، یعنی شہر جتنی کاربن پیدا کرے گا، اتنی ہی جذب یا استعمال بھی کرے گا جس سے فضا میں مضر کاربن گیسوں کی مقدار میں نمایاں کمی آئے گی۔

دہلی سے وی او اے کی انجنا یسرچا کے مطابق دنیا میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطوں میں سے ایک، جنوبی ایشیا کا یہ پہلا شہر ہے جہاں کاربن کے اخراج کو صفر تک لانے کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔حالیہ برسوں میں اس ساحلی شہر میں سمندر کی سطح میں اضافے کے علاوہ کہیں زیادہ موسلادھار بارشیں ہوئیں اور طوفان آتے رہے ہیں۔

سائنسدانوں کے مطابق بحیرہ عرب کے کنارے کی ایک تنگ پٹی پر بنائے گئے اس شہر کے نشیبی علاقے میں جہاں لاکھوں غریب لوگ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور شہر کا جنوبی حصہ جہاں بلند و بالا آفس ٹاورز، اسٹاک مارکیٹ اور ریاستی مقننہ کی عمارتیں ہیں خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات کی زد میں ہیں۔

مہاراشٹرا کے وزیر اعلیٰ ادھوٹھاکرے نے گزشتہ ماہ اس منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ممبئی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ شہر بن جائے گا۔

ہدف خاصا بلند ہے۔ ممبئی چاہتا ہے کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کے مقررہ کردہ ہدف سے بیس سال پہلے کاربن کے اخراج اور استعمال کر برابر کر دے۔ اسے نیٹ زیرو ایمیشنز کہا جاتا ہے۔ صرف اس دہائی میں حکام کا ہدف ہے کہ کاربن کے اخراج میں تیس فیصد کمی کی جائے۔

تاہم یہ ہدف آسان نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں یہاں کی فلک بوس عمارتوں میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ شہر کی آبادی بڑھ کر دو کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے سرسبز علاقے کم ہوگئے ہیں اور شہر کی آبادی ہے کہ بڑھتی چلی جارہی ہے۔

شہر میں آغاز ٹرانسپورٹ سیکٹر سے کیا گیا ہے جس کا گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں بیس فیصدحصہ ہے۔اس کے لیے ماحول دوست گاڑیوں کو بڑھانا،ٹرانسپورٹ کے پرائیویٹ سیکٹر سے پبلک سیکٹر میں منتقلی کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگا جو نئے میڑو پروجیکٹس شروع کرکے اور مزید بسوں میں اضافہ کرکے کیا جارہا ہے۔

اب تک تین سو چھیاسی الیکٹرک بسوں نے ڈیزل بسوں کی جگہ لے لی ہے اور آئندہ سال تک شہر کے نصف بیڑے کو ماحول دوست بنانے کے لیے اس میں تقریبا دو ہزار مزیدبسیں شامل کی جائیں گی۔

ماحولیاتی ایکشن پلان کے پالیسی ایڈوائزر سوربھ پونامیہ کہتے ہیں کہ کرائے بہت سستے ہیں اور سفر کو آسان بنانے کے لیے بسوں اور میٹرو میں ایک ہی کارڈ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہوٹلوں اور صنعتوں کو بھی الیکڑک گاڑیوں کی طرف جانے کی ترغیب دی جارہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ برقی نقل وحمل کے نظام پر منتقلی ممکن ہے۔ایک تھنک ٹینک، کونسل آن انرجی، انوائرمنٹ اینڈ واٹر کے فیلو ویبھو چترویدی کہتے ہیں کہ بھارت میں الیکٹرک اور پیڑول کاروں کے درمیان قیمت کا فرق نمایاں طور پر کم ہوگیا ہے۔ حکام کو صرف ایک چیز کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ کافی تعداد میں چارجنگ اسٹیشن بنائیں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ماس ٹرانزٹ استعمال کرنے پر آمادہ کرنا زیادہ مشکل ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جس رجحان کا مشاہدہ کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ جب آمدن بہتر ہوتی ہے تو لوگ پبلک ٹرانسپورٹ چھوڑ کر دو پہیہ سواری اور پھر گاڑیاں خرید لیتے ہیں۔

ایک ایسے شہر میں جہاں زیادہ تر حرارت شیشے اور لوہے سے بنی فلک بوس عمارتوں سے پیدا ہوتی ہے وہاں ان کی جگہ ماحول دوست عمارتوں کی تعمیر کے لیے بھی اقدامات اٹھانا پڑیں گے۔شہر کے لیے نئے منصوبے کے تکنیکی مشیر ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ کی لوبینہ رنگ والا نے کہا کہ ہم نے تجویز دی ہے کہ دو ہزار تیس کے بعد تعمیر ہونے والی عمارتوں کو زیرو ایمیشنز والی عمارتیں ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ شمسی پینل اور ایل ای ڈی بلب لگاکر، گندے پانی کو ری سائیکل کرکے ، بارش کے پانی کو چھوٹے گڑھوں میں محفوظ بنا کر اور ٹھنڈک کی ضرورت کو کم کرنے کے لیے کافی تعداد میں درخت لگا کر یہ کیا جاسکتا ہے۔

توانائی، ٹرانسپورٹ، فضلہ اور سرسبز مقامات کے انتظامات میں کلیدی تبدیلی لائی جارہی ہے۔

حکام درختوں اور مینگروز کی حفاظت اور شہری جنگلات کو بحال کرنے کا منصوبہ بھی بنارہے ہیں جو حالیہ دہائیوں میں شہر میں ختم ہوکر رہ گئے ہیں۔ موسمیاتی سائنسدانوں نے خاص طور پر میگروز کے بہت بڑے نقصان کی نشاندہی کی ہےجو نہ صرف کاربن کو جذب کرتے ہیں بلکہ ساحلی کٹاو اور سیلاب کی راہ میں حائل بھی ہوتے ہیں۔

تاہم ساحلی شہر میں راستوں کی تعمیر کے لیے درخت اب بھی کاٹے جارہے ہیں اوربھیڑ کو کم کرنے کے لیے زیر زمین سرنگیں بنائی جارہی ہیں ۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان نقصانات کی تلافی درختوں کی پیوندکاری کرکے کی جارہی ہے اور کہا کہ نئی سڑکیں ٹریفک کی روانی کو تیز کرکے حرارت کے اخراج میں کمی کریں گی۔

سب سے بڑا چیلنج پاور سیکٹر سے پیدا ہونے والے تقریبا ستر فیصد کاربن کے اخراج کو مرحلہ وار ختم کرنے کا ہوگا۔ شہر کی زیادہ تر بجلی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر میں بنتی ہے اور ممبئی کی آبادی بڑھنے کے ساتھ آنے والی دہائیوں میں اس کی مانگ میں اضافہ ہوگا۔ ابھی تک اس بارے میں کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے کہ کس طرح زیادہ بجلی پیدا کی جائے گی ا ور ساتھ ہی کاربن کے اخراج کو کم بھی کیا جائےگا جس سے کہ ماحولیاتی حدت پیدا ہوتی ہے۔

ہندوستان نے دو ہزارتیس تک اپنی نصف توانائی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے ، گرچہ اس میں پیش رفت ہورہی ہے، لیکن رکاوٹیں بھی سامنے آرہی ہیں، جیسے کہ گنجان آباد ملک میں شمسی پارک لگانے کے لیے کافی زمین کو تلاش کرنا۔ شہر کے اطراف میں ڈیموں کی جھیلوں پر تیرتے سولر پینل لگانے کی تجویز پربھی غور کیا جارہا ہے۔

چترویدی کہتے ہیں کہ تیس سال بعد قابل تجدید توانائی کےشعبے کو درپیش بہت سی دشواریوں کا خاتمہ ہوجائے گا اور بہت زیادہ قابل تجدید توانائی پیدا ہوگی،وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سولر توانائی کے علاوہ ونڈ اور جوہری توانائی کے آپشن بھی موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ممبئی نے ایک چیلنجنگ ہدف مقرر کیا ہے لیکن شہر کے لیے دو ہزار پچاس تک اس ہدف کو حاصل کرنے کے طریقے موجود ہیں۔ ہدف مقرر کرتے ہوئے فیصلہ سازوں کو ان خطوط پر سوچنا اور اس کے مطابق پالیسیاں بنانا ہوگی۔

XS
SM
MD
LG