پاکستان کے سیاحتی مقام مری میں شدید برفباری میں پھنسنے سے ہونے والی 22 ہلاکتوں کا معاملہ ہر جگہ موضوع بحث ہے۔ جہاں شدید موسمی حالات کے باوجود بروقت اقدامات نہ کرنے پر انتظامیہ کی کارکردگی پر سوال اُٹھائے جا رہے ہیں تو وہیں ان عوامل پر بھی بحث جاری ہے جس کے نتیجے میں یہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔
واقعے کی تحقیقات کے لیے وزیرِ اعظم کی ہدایت پر اعلٰی سطحی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرے گی جو اس اندوہناک واقعہ کی وجہ بنے۔
بعض حلقے وزیرِ اعظم سمیت اہم وزرا کے ان بیانات کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ شدید موسمی حالات کے باوجود عوام نے مری کا رُخ کیا جس کے باعث انتظامی ڈھانچہ مفلوج ہو کر رہ گیا۔
محکمہ موسمیات کی جانب سے موسم کی خرابی یا طوفان کی پیش گوئی کے بعد انتظامیہ کیا کرتی ہے اور اس معاملے میں کہاں کس سے کوتاہی ہوئی اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے محکمہ موسمیات کے حکام، سابق انتظامی افسران اور مقامی افراد سے بات کی ہے۔
محکمہ موسمیات کی بروقت ایڈوائزری کے باوجود کارروائی کیوں نہ ہوئی؟
محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ سخت موسمی حالات کے پیشِ نظر محکمے نے پانچ جنوری کو مزید بارشوں اور برف باری کی پیش گوئی کر دی تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محکمۂ موسمیات اسلام آباد کے ترجمان ظہیر احمد بابر کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے محکمۂ موسمیات کی جانب سے دو ایڈوائزریز جاری کر دی گئیں تھی۔
اُن کے بقول تمام متعلقہ اداروں بشمول این ڈی ایم اے، ضلعی اور تحصیل انتظامیہ اور عوام کی آگہی کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بھی سخت موسمی حالات سے متعلق آگاہ کیا گیا تھا۔
محکمۂ موسمیات کی ویب سائٹ پر پانچ جنوری کی پیش گوئی کے تحت یہ واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ چھ سے نو جنوری کی دوپہر تک مری، گلیات، وادیٔ نیلم، باغ، حویلیاں، راولاکوٹ، ناران، کاغان، ہنزہ، گلگت، اسکردو، استور، چترال، دیر، سوات اور مالم جبہ میں شدید پرف باری ہو گی۔
ترجمان محکمۂ موسمیات کا مزید کہنا تھا کہ دیگر علاقوں سمیت مری اور گلیات میں برف اباری کے باعث سڑکوں کے بند ہونے کے حوالے سے سیاحوں کو محتاط رہنے کی ہدایات بھی جاری کی گئی تھیں۔
اداروں کے درمیان رابطوں کا فقدان وجہ بنی؟
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کہ ماضی کے برعکس اس دفعہ اس تمام واقعے کو مری کے بجائے راولپنڈی سے ہی سنبھالنے کی کوشش کی گئی۔
سن 1984 سے 2014 تک مری اور گرد و نواح میں مختلف پوزیشنز پر کام کرنے والے سابق پولیس افسر اشتیاق شاہ کہتے ہیں کہ مری میں برف باری معمول کی بات ہے جب کہ سیاحوں کی آمد اور تعداد بھی متعین ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ جب وہ سروس میں تھے تو 14 اگست، نئے سال کے آغاز، برف باری کی شروعات کے وقت وہ خود مری میں موجود ہوتے تھے۔ اور اس سے قبل سینئر اہل کاروں سے میٹنگ ہوتی تھی تاکہ اس ایونٹ کو ترتیب دیا جا سکے۔ اس کے بعد پریس کانفرنس کی جاتی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حالاں کہ اس وقت اتنی زیادہ مشینری اور وسائل بھی نہیں ہوتے تھے۔ اس کے باوجود بھی کبھی ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ جب کبھی بھی برف باری شروع ہوتی تھی تو وہ برف ہٹانے والی ٹیموں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوتے تھے تاکہ وہ مشینیں مسلسل چلتی رہیں۔
اشتیاق شاہ کہتے ہیں کہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال کی صورت میں وہ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور اسسٹنٹ کمشنر مری کے ساتھ مسلسل میٹنگ کرتے تھے۔ گاڑیاں پھر بھی پھنستی تھیں لیکن اُنہیں وہاں سے نکال لیا جاتا تھا۔
سابق ایس پی کا مزید کہنا تھا کہ مشینری کو ایک جگہ کے بجائے جھیکا گلی، کلڈنہ اور باڑیاں پر اسٹینڈ بائی رکھا جاتا تو حالات اس نہج پر نہ پہنچتے۔
برف ہٹائے جانی والی مشینری کے اہلکار ڈیوٹی سے غائب
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک شہری احتشام منظور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ چٹا موڑ کے قریب شدید ٹریفک جام میں پھنس گئے تھے۔
اُن کے بقول عام حالات میں وہاں سے سنی بینک تک کا راستہ وہ چند ہی منٹوں میں طے کر لیتے ہیں تاہم اس وقت انہیں چار گھنٹے لگے۔ وہاں پہنچ کر ان کے پاس نہ آگے اور نہ ہی پیچھے جانے کا کوئی راستہ تھا کیونکہ ہر طرف ٹریفک مکمل جام تھی۔
یاد رہے کہ عام حالات میں سیاح سنی بینک سے مال روڈ کا فاصلہ پیدل آدھے گھنٹے میں طے کر لیتے ہیں تاہم برف اور ٹریفک جام کے باعث کسی بھی طرف نکلنا محال تھا۔
احتشام منظور کے مطابق انہوں نے رات سنی بینک کے قریب برف میں ہی گزاری، حالاں کہ سنی بینک میں مشینری موجود تھی لیکن وہاں عملہ ڈیوٹی پر نہیں تھا۔
سنی بینک کی دکانیں رات 10 بجے بند
انہوں نے مزید بتایا کہ سنی بینک کے قریب اگرچہ آبادی بہت کم ہے تاہم 100 سے زیادہ دکانیں ضرور وہاں ہیں لیکن دکان مالکان نے اپنی دکانیں 10 بجے کے بعد بند کرنی شروع کر دیں۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تمام رات گاڑی اسٹارٹ رکھی اور تمام تر احتیاطی تدابیر بروئے کار لائے۔ بصورتِ دیگر وہ بھی اپنی فیملی سمیت کسی ناخوشگوار حادثے کا شکار ہو سکتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انتظآمیہ نے محکمہ موسمیات کی واضح ہدایات کو ملحوظِ خاطر ہی نہیں رکھا ورنہ بڑی تعداد میں شہریوں کے مری داخلے کو باآسانی سترہ میل کے قریب ٹول پلازہ پر ہی روکا جا سکتا تھا۔
تین دن میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد گاڑیوں کا مری میں داخلہ
مری ٹریفک پولیس کے ڈی ایس پی، محمد اجمل ستی کا کہنا ہے کہ ویک اینڈ پر ڈیڑھ لاکھ سے زائد گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔ جس سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہریوں کی تعداد تقریباً پانچ لاکھ کے قریب ہو گی جو مری میں موجود ہوٹلز، گیسٹ ہاؤسز اور فلیٹس کی گنجائش سے کہیں زیادہ تھی۔
علی امین کا تعلق راوالپنڈی سے ہے۔ وہ ایک ٹور آپریٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو کبھی بھی ہوٹل اور فلیٹوں میں رہائش نہیں مل سکتی۔ اور ایسی صورت میں مقامی علاقے کے افراد تعاون کر کے لوگوں کو اپنے گھروں میں جگہ دیتے ہیں۔
اُن کے بقول مری میں ٹریفک جام، مہنگے ہوٹل کرائے کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم سیزن شروع ہونے سے قبل انتظامیہ، محکمہ ٹریفک، سول انتظامیہ، ہوٹل اور تاجر اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ لیکن اس واقعے کے دوران بھی بے حسی دیکھنے میں آئی۔
سرکاری سطح پر سیاحت پر زور لیکن انتظامات نہ ہونے کے برابر
علی امین کا مزید کہنا کہ پاکستان میں سرکاری سطح پر سیاحت کے فروغ پر ہمیشہ زور دیا جاتا ہے تاہم اس بابت آگہی، انفراسٹرکچر اور حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
اُن کے بقول مری کی انتظامیہ نے کبھی بھی جامع ٹریفک پلان پر کام ہی نہیں کیا اور بدقسمتی سے حکومت کسی حادثے کے بعد ہی جاگتی ہے۔
وائس آف امریکہ نے مری انتظامیہ اور این ڈی ایم اے سے رابطہ کرنے کی متعدد کوششیں کیں تاہم فون کالز اور ٹیکسٹ میسجز کا جواب نہیں دیا گیا۔
البتہ وزیرِ اعظم عمران خان نے اس واقعے کے بعد اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت قواعد و ضوابط وضع کیے جائیں گے۔