رسائی کے لنکس

بھارت: غیر رجسٹرڈ مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن، مسلم تنظیموں کی مخالفت


  • بھارتی ریاست اترپردیش میں غیر رجسٹرڈ مدارس کے طلبہ کو اسکولوں میں داخل کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔
  • غیر تسلیم شدہ مدارس کو حکومت کی جانب سے امداد نہیں دی جاتی۔
  • حکومت کا کہنا ہے کہ ان مدارس میں طلبہ کو جدید علوم نہیں پڑھائے جاتے۔
  • لیکن مدارس کا دعویٰ ہے کہ یہاں بھی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم پڑھائے جاتے ہیں۔
  • مختلف اضلاع میں مدارس کے ذمے داروں کے ساتھ ہونے والی میٹنگز میں انتظامیہ اور مدارس کے ذمہ داروں کے درمیان تلخ کلامی تک کی نوبت آ رہی ہے۔
  • اگر حکم نامہ واپس نہیں ہوا تو وہ اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرے گا: مسلم پرسنل بورڈ

نئی دہلی -- بھارتی ریاست اتر پردیش میں غیر رجسٹرڈ مدارس کے طلبہ کو اسکولوں میں داخل کرانے کے فیصلے پر مسلم تنظیموں کی جانب سے مخالفت کی جا رہی ہے۔

ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے چیف سیکریٹری درگا شنکر مشرا نے غیر تسلیم شدہ آٹھ ہزار سے زائد مدارس کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو ریگولر اسکولوں میں داخل کرائیں جس پر مدارس کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔

غیر تسلیم شدہ مدارس کو حکومت کی جانب سے امداد نہیں دی جاتی۔

حکومت کا مؤقف ہے کہ چوں کہ مدارس میں جدید تعلیم نہیں دی جاتی اس لیے وہاں زیرِ تعلیم طلبہ کا مستقبل تاریک ہے۔ وہ طلبہ کو اسکولوں میں داخل کر کے ان کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتی ہے۔

مدارس کے ذمے داروں کا کہنا ہے کہ ان کے اداروں میں جدید علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں اور وہاں کے طلبہ کو مختلف یونیورسٹیز میں اعلیٰ کورسز میں داخلہ دیا جاتا ہے۔ متعدد طلبہ آج حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔

جن مدارس کو حکم نامہ جاری کیا گیا ہے ان میں عالمی شہرت یافتہ ادارے دار العلوم دیوبند، ندوۃ العلما لکھنؤ، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعہ اشرفیہ مبارکپور، جامعۃ الفلاح بلریا گنج اور مدرسۃ الاصلاح سرائے میر بھی شامل ہیں۔

'فیصلے پر عمل درآمد کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے'

بھارت نیپال سرحد سے متصل ضلع سدھارتھ نگر کے بعض مدارس کے ذمہ داروں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کئی اضلاع کے تعلیمی اہل کاروں نے مدارس کے ذمہ داروں کے ساتھ میٹنگ کی اور اس حکم پر عمل درآمد کے لیے دباؤ ڈالا۔

ضلع سدھارتھ نگر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈی ایم) راجہ گن پتی آر نے بھی مدارس کے ذمہ داروں کے ساتھ میٹنگ کر کے چیف سیکریٹری کے حکم پر عمل کرنے کا کہا۔ انھوں نے انتباہ کیا کہ اس حکم کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جائے گی۔ میٹنگ میں محکمہ تعلیم کے تمام اعلیٰ اہل کار بھی موجود تھے۔

اس سے قبل حکومت نے بھارت نیپال سرحد سے متصل اضلاع کے مدارس پر الزام لگایا تھا کہ ان کو ملنے والا فنڈ دہشت گردی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس نے ان مدارس کی چھان بین کے لیے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

مدارس کے ذمے داروں کے مطابق ایس آئی ٹی کو اپنی تحقیقات میں فنڈ کے دہشت گردی میں استعمال ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

مسلمانوں کے ایک متحدہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے چیف سیکریٹری کے حکم نامے پر احتجاج کیا ہے۔

'حکم نامہ واپس نہ ہوا تو عدالت سے رُجوع کریں گے'

بورڈ کے ایک وفد نے منگل کو لکھنؤ میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کی اور چیف سیکریٹری کے حکم نامے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

بورڈ کا کہنا ہے کہ اگر حکم نامہ واپس نہیں ہوا تو وہ اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرے گا۔

بورڈ کے وفد نے وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ یہ حکم نامہ آئین کی دفعات 14، 21، 26، 28، 29 اور 30 کی حلاف ورزی ہے۔ آئین نے اقلیتوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ تعلیمی ادارے قائم کر سکتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق ان کا انتظام و انصرام کر سکتے ہیں۔

بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انتظامیہ نے اتر پردیش اور نیپال کی سرحد سے متصل اضلاع سدھارتھ نگر، سنت کبیر نگر، بستی اور کشی نگر وغیرہ میں مدارس کے خلاف کارروائی بھی شروع کر دی ہے۔

اس سلسلے میں مختلف اضلاع میں مدارس کے ذمے داروں کے ساتھ ہونے والی میٹنگز میں انتظامیہ اور مدارس کے ذمہ داروں کے درمیان تلخ کلامی تک کی نوبت آ رہی ہے۔

وائس آف امریکہ نے اس سلسلے میں اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار جاوید سے بذریعہ فون رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی مگر انھوں نے فون رسیو نہیں کیا۔

واضح رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے رواں سال مارچ میں اپنے ایک فیصلے میں ’مدرسہ ایجوکیشن بورڈ 2004‘ کو غیر آئینی قرار دیا تھا اور اتر پردیش حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کو ریگولر تعلیمی اداروں میں داخل کرائے۔

ریاست کے مدرسہ ایسوسی ایشن نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس پر عدالت نے سماعت کرتے ہوئے فیصلے پر حکم امتناع جاری کر دیا تھا۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والے بینچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سیکولرازم اور دستور کی دفعہ 14 میں دیے گئے بنیادی حقوق کے منافی قرار دیا تھا۔ اس نے مدرسہ بورڈ کو غیر آئینی قرار دینے پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ وہ جس مقصد کے لیے قائم کیا گیا ہے وہ ریگولیٹری ہے۔

حکومت کا ردِعمل

مرکز میں حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے اقتدار والی ریاستوں میں مدارس کے خلاف کارروائی کا آغاز آسام میں ہوا اس کے بعد اترپردیش میں کارروائی شروع ہوئی اور اب یہ سلسلہ بی جے پی اقتدار والی ایک اور ریاست مدھیہ پردیش تک جا پہنچا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مدھیہ پردیش کی حکومت نے شیو پور ضلع کے 56 مدارس کو بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اس کا الزام ہے کہ یہ مدارس تعلیم کے نام پر حکومت سے فنڈ لیتے ہیں۔ لیکن ان میں تعلیم نہیں ہوتی۔ حکومت نے ان مدارس کی جانچ کا بھی حکم دے دیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق مذکورہ ضلع میں 80 مدارس ہیں جن میں سے 56 بند ہو چکے ہیں۔ حکومت نے پہلے ان مدارس کو دی جانے والی امداد بند کی اور اب ان کو باضابطہ بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

ریاست کے وزیر تعلیم ادے پرتاپ سنگھ کا کہنا ہے کہ ریاست بھر میں نجی اسکولوں اور مدرسوں کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔ جن اداروں میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پائی جائے گی ان کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔

قبل ازیں ریاست آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے 2022 میں مدارس پر دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ اس الزام کے تحت متعدد مدارس کو منہدم کیا جا چکا ہے۔

آسام حکومت نے گزشتہ سال دسمبر میں ریاست کے 1281 مدارس کو مڈل انگلش اسکول میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس نے تمام سرکاری اور حکومت کی امداد یافتہ مدارس کو جنرل اسکول میں بدل دیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG