|
لاہور -- چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سر کی قیمت مقرر کرنے والے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے رہنما کو تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مرکزی ملزم کی تلاش جاری ہے۔
پنجاب پولیس کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کو دھمکی دینے والے ظہیرالحسن اور دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی مختلف ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔
چیف جسٹس کو دھمکیاں دینے کے مقدمے میں تحریک لبیک کے گرفتار رہنما مولانا محمد طاہر سیفی کو منگل کو انسدادِ دہشت گردی عدالت لاہور میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے اُن کا سات روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔
تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے اتوار کو لاہور پریس کلب کے باہر احتجاج کیا تھا جس میں چیف جسٹس آف پاکستان کو قتل کرنے کی دھمکیوں کے علاوہ اُن کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔
مقدمے میں دہشت گردی اور مذہبی منافرت پھیلانے، کارِ سرکار میں مداخلت، اعلٰی عدلیہ کو دھمکیاں دینے سمیت دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ مقدمہ لاہور کے تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں درج کیا گیا۔
مقدمے کے بعد چیف جسٹس کے سر کی قیمت مقرر کرنے والے ظہیرالحسن کی گرفتاری کی خبریں سامنے آئی تھیں۔ تاہم پنجاب پولیس کے مطابق ظہیرالحسن کو تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا۔
واضح رہے کہ 24 جولائی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے مختلف مذہبی تنظیموں کی طرف سے دی گئی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے احمدی کمیونٹی کے فرد مبارک احمد ثانی کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
مختلف مذہبی تنظیموں نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اجتجاج کا اعلان کیا تھا۔
مبارک احمد ثانی پر الزام تھا کہ وہ احمدی کمیونٹی کی جانب سے قرآن کی تفسیر 'تفسیرِ صغیر' کی اشاعت اور تقسیم میں ملوث تھے۔ اس حوالے سے چھ دسمبر 2022 کو پنجاب کے شہر چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ مبارک احمد ثانی کو جنوری 2023 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
مبارک احمد کی گرفتاری کے بعد ایڈیشنل سیشن جج اور بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کی تھی۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے چھ فروری 2024 کو فیصلہ سناتے ہوئے مبارک احمد ثانی کو پانچ ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض فوراً ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ نظرِثانی اپیل کے بعد بھی بدھ کو عدالتِ عظمیٰ نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کا مطالبہ
ٹی ایل پی نے اتوار کو احتجاج کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ یہ مطالبہ ٹی ایل پی کے سربراہ حافظ سعد حسین رضوی کی جانب سے سامنے آیا تھا۔
اُن کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کریں گے۔
سعد حسین رضوی کی جانب سے یہ مطالبہ اتوار کو لاہور پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرے میں سامنے آیا ہے جس میں اُن کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف فوری طور پر ریفرنس دائر کر کے ان کے خلاف کارروائی شروع کی جائے۔
واضح رہے کہ ٹی ایل پی کے لاہور کے احتجاج کے بعد حکومت کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آیا تھا۔
وفاقی وزرا خواجہ آصف اور احسن اقبال نے ایک پریس کانفرنس میں ٹی ایل پی کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔
مقدمہ درج ہونے کے بعد سے مقدمہ میں نامزد تحریک لبیک پاکستان کے نائب امیر ظہیرالحسن سمیت چند کارکنوں کی گرفتاری بارے متضاد اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔
ڈی آئی جی آپریشن فیصل کامران بتاتے ہیں کہ پولیس نے تحریک لبیک پاکستان کے اُن کارکنوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر رکھا ہے جو مقدمے میں نامزد ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پولیس کی تفتیش، آپریشن اور سی آئی اے کی ٹیمیں اِس معاملے پر کام کر رہی ہیں۔
ڈی آئی جی آپریشن کے مطابق مقدمے میں نامزد ٹی ایل پی کا نائب امیر اور مرکزی ملزم ظہیر الحسن تاحال روپوش ہے جس کے باعث پولیس اُنہیں گرفتار نہیں کر سکی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مرکزی ملزم سمیت تمام ملزموں کے خلاف دہشت گردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں پولیس کو بغیر کسی آرڈر کے اُس شخص کو گرفتار کرنا ہوتا ہے۔
ٹی ایل پی لاہور کے سیکریٹری اطلاعات محمد یوسف رضوی کہتے ہیں کہ پولیس نے اُن کی جماعت کے پانچ کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اُن کا احتجاج تو عدالت کے خلاف ہے لیکن اُن کا اصل مطالبہ موجودہ حکومت سے ہے کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرینس دائر کیا جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت اُن کے مطالبہ پر غور کرنے کے بجائے اُلٹا ان کے خلاف پریس کانفرنس کر رہی ہے اور مقدمات درج کر رہی ہے۔
محمد یوسف رضوی کا کہنا تھا کہ جماعت نے اِس بارے میں اپنا مؤقف مرکزی شورٰی کے اراکین کے ذریعے دے دیا ہے اور وہی اُن کا مؤقف اور مطالبہ ہے۔
کیا پولیس پر کوئی دباؤ ہے؟
ڈی آئی جی آپریشن فیصل کامران کا کہنا تھا کہ اِس کیس کے سلسلے میں پولیس پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔ ایک کام خلافِ قانون ہوا ہے جس پر دباؤ جیسے فیکٹر تو ہوتے ہیں لیکن اگر دباؤ ہوتا تو مقدمہ ہی درج نہ ہوتا۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اِس وقت پولیس کی یہی کوشش ہے کہ مرکزی ملزم سمیت تمام ملزموں کو گرفتار کر لیا جائے۔
فورم