رسائی کے لنکس

بغداد: مصطفیٰ الکاظمی نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا


حلف لینے کی تقریب میں صدر برہام صالح اور نئے وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی۔
حلف لینے کی تقریب میں صدر برہام صالح اور نئے وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی۔

مصطفیٰ الکاظمی نے عراق کے نئے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ گزشتہ سال نومبر کے بعد سے مصطفیٰ الکاظمی تیسرے شخص ہیں جنہیں عادل عبدالمہدی کی جگہ لینے کے لئے نامزد کیا گیا۔

وہ عراقی انٹیلیجنس کے سابق سربراہ ہیں اور ایران میں جلاوطنی گزار چکے ہیں۔

ہر چند کہ عراقی پارلیمنٹ کے دھڑے انکی کابینہ کے لئے ناموں پر متفق نہیں ہو پا رہے ہیں اور یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ انہیں ایران کا حامی سمجھا جاتا ہے، تو وہ امریکہ اور سعودی عرب کے لئے کیسے قابل قبول ہوں گے۔

لیکن، بیشتر تجزیہ کار اور مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر نظر رکھنے والے اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ موجودہ حالات میں وہ ایک بہتر انتخاب ہیں۔ اور اسوقت عراق جس معاشی اور معاشرتی بحران سے گزر رہا ہے، وہ اسے اس سے نکالنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

شارجہ کی امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر، ڈاکٹر حیدر مہدی نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عراق کے ایک سابقہ انٹیلیجنس چیف کی حیثیت سے انکے امریکہ سے تعلقات اچھے رہے ہیں اور ایران سے بھی انکے تعلقات ہیں۔

بقول ان کے، ایسا نظر آتا ہے کہ وہ ایک مشترکہ غیر تحریری معاہدے کے تحت عراق کے وزیر اعظم بنائے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکی صدارتی انتخاب کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی یہ کوشش ہوگی کہ یہ تاثر جائے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں بھی کام کر رہے ہیں اور وہ خطہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اہمیت رکھتا ہے۔ اور وہ ایران کے ساتھ تصادم سے زیادہ خطے میں دور رس مثبت اثرات چاہتے ہیں۔

سعودی عرب کے حوالے سے، انھوں نے کہا کہ سعودی عرب ایک موثر علاقائی طاقت بننا چاہتا تھا۔ تاہم، موجودہ صورتحال میں کرونا وائرس کے معاشی اثرات اور تیل کی کھپت میں کمی نے اس تصور کو کمزور کر دیا ہے؛ اور خود سعودی عرب کو بھی یہ احساس ہو گیا ہے کہ شاید فی الوقت ایسا ممکن نہ ہو۔ بقول ان کے، سعودی عرب بھی مصالحت کی طرف جانا چاہے گا۔ اسلئے اسکی طرف سے بھی اس تقرری پر کسی حقیقی رد عمل کا امکان نظر نہیں آتا۔

بر عکس اس کے، ڈاکٹر حیدر مہدی نے کہا کہ عالمی سیاست میں تعاون اور تصادم کی بجائے اقتصادی معاملات پر زیادہ توجہ دینے کا رجحان فروغ پائے گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں دنیائے اسلامی سیاست کے ضمن میں بڑی تبدیلیاں نظر آئیں گی۔

اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے، مڈایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا تھا کہ بہ حیثیت انٹیلیجنس چیف کے طور پر مصطفیٰ الکاظمی کا امریکہ سے بھی گہرا تعلق رہا ہے۔ بقول انکے، یہ بھی اطلاعات ہیں کہ انکی تقرری میں امریکہ کی مرضی بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر امریکی ایران سے کوئی تصادم نہیں چاہیں گے۔

ڈاکٹر زبیر اقبال نے مزید کہا کہ جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے، تو درحقیقت عراق سے اسکا تعلق امریکہ کے توسط سے ہے۔ اور اس سلسلے میں وہ کوئی بھی موقف امریکہ کے موقف کی مطابقت ہی اختیار کرے گا اور حالات کو خاموشی سے دیکھے گا۔ اسلئے، کہا جا سکتا ہے کہ عراق کے نئے وزیر اعظم کی راہ ہموار ہے اور عالمی سطح پر انہیں کسی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

عراقی پارلیمنٹ کے سب سے بڑے گروپ کے لیڈر، مقتدیٰ الصدر کے رویے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، ڈاکٹر زبیر اقبال نے کہا کہ وہ حکومت ہر نکتہ چینی ضرور کریں گے، لیکن مخالفت نہیں کریں گے۔ ایک طرح سے، وہ غیر جانبدار رہیں گے اور ایران کی مخالفت یا حمایت سے بھی اس وقت گریز کریں گے۔

XS
SM
MD
LG