رسائی کے لنکس

پاکستانی کشمیر میں ’اپنی مدد آپ‘ کے تحت سکولوں کی تعمیر


پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 2005ء میں آنے والے زلزلے میں 2800 سے زائد سکول متاثر ہوئے تھے اور فنڈز کی کمی کے باعث نصف سے زائد کی تعمیر مکمل نہیں ہو سکی

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سینکڑوں تعلیی اداروں کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے ہزراوں بچے موسمی شدت میں کھلے آسمان کے نیجے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔

سنہ 2005 میں آنے والے تباہ کن زلزے میں متاثر ہونے والے 3000 کے قریب سکولوں میں سے اب تک صرف نصف کی تعمیر مکمل ہو سکی ہے۔ حکام کی طرف سے اس کی بڑی وجہ فنڈز کی کمی بتائی جاتی ہے۔


لیکن، پاکستانی کشمیر کے جنوبی ضلع بھمبر کے گاؤں گرہیون کے باسیوں نے حکومت سے مایوس ہو کر اپنی مدد آپ کے تحت سکول کے لئے تین کمرے، باڑبندی اور پینے کے صاف پانی کے لئے ہنڈ پمپ کی تعمیر مکمل کرکے ایک نئی روایت قائم کر دی ہے۔


واضع ریے کہ اس سے قبل گرہیون گاؤں کا سرکاری مڈل سکول ایک کمرے پر مشتمل تھا، جس کی وجہ سے گاؤں کے بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور تھے اور برسات کے موسم میں انھیں سکول سے چھٹی کرنا پڑھتی تھی؛ جس کے باعث گاؤں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے دور جانا پڑتا تھا۔


اس گاؤں کے زیادہ تر لوگ روزگار کے سلسلے میں برطانیہ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں مقیم ہیں۔


سکول کی تعمیر پر مامور صوبیدار ریٹارڈ خادم حیسن نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ گاؤں والوں نے اپنی مالی حثیت کے مطابق سکول کی تعمیر میں حصہ لیا۔


انہوں نے بتایا کہ برطانیہ میں مقیم گرہیون کے سابق چیرمین مرکز سماہنی عبداللہ زید نے سکولوں کی تعمیر نو میں کلیدی کردار ادا کیا اور برطانیہ سے سکولوں کی تعمیر کے لئے فنڈز بھجے۔


انہوں نے بتایا کہ گاؤں والوں کی شراکت سے گاؤں کے گرلز مڈل سکول کی بھی تعمیر نو کی گئی۔


پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 2005ء میں آنے والے زلزلے میں 2800 سے زائد سکول متاثر ہوئے تھے اور فنڈز کی کمی کے باعث نصف سے زائد کی تعمیر مکمل نہیں ہو سکی۔


پاکستانی کشمیر کے زلزلے سے بحالی و تعمیر نو کے ادارے سیرا کے ناظم برائے منصوبہ بندی عابد غنی میر نے بیاتا کہ مالی وسائل کی قلت کے باعث اب تک 2800 میں سے صرف 138 سکولوں کی تعمیر مکمل کی جاسکی ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں طلبہ کھلے آسمان تلے یا شلٹرز میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔

XS
SM
MD
LG