میانمار کی مغربی ریاست، رخائین سنہ 2012سے نسلی تشدد کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں ہلاکتیں، نذر آتش کیے جانے کے واقعات اور ہجوم کی شکل میں کی جانے والی تشدد کی کارروائیاں شامل ہیں، جس کے باعث زیادہ تر لاکھوں روہنگیا مسلمان کشتیوں میں سوار ہو کر ملک سے بھاگ نکلے ہیں اور خیموں میں پناہ گزینوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
کسی حد تک تشدد کی کارروائی تھمی ہے، لیکن ہزاروں افراد تنگ خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ابھی اس بات کے کوئی آثار نہیں کہ معاشرہ اُن کے لیے کوئی نرم گوشہ رکھتا ہے۔
تین برسوں سے، رخائین کا نام تشدد اور انسانی مشکلات سے جڑا ہوا ہے۔
معاشرے کے مختلف طبقے بہت حد تک فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر تقسیم ہو چکے ہیں، جس میں سے بودھ مت کے ماننے والےدیہاتی زیادہ تر مسلمان نسل والے، روہنگیاؤں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، تقریباً 140000 افراد اپنے گھربار چھوڑ کر غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے سرکاری کنٹرول والے علاقوں اور خیموں میں مکین ہیں۔
تب سے، اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کی جانب سے قائم کیمپوں میں صورتِ حال خراب سے خراب تر ہو چکی ہے۔
تاہم، آسٹریلیا کے دو محقق، جو برادری کے مختلف طبقات پر تحقیق کر رہے ہیں، کہا ہے کہ حالیہ سروے سے پتا چلتا ہے کہ معاشرے کے دونوں فریق مفاہمت کے حامی ہیں۔
اینتھونی ویر اور رونان لی کا تعلق ملبورن کی ڈکن یونیورسٹی سے ہے۔ اُنھوں نے ریاست رخائین میں 600 افراد اور برادری کے رہنماؤں کے انٹرویو کیے ہیں، جس کی بنیاد پر وہ اس معاملے پر تحقیق کو آخری شکل دے رہے ہیں۔
لی کےبقول، ’ہمیں معلوم ہوا ہے کہ معاشرے کے دونوں طبقوں میں ایک دوسرے کے لیے ہمدردی کے جذبات باقی ہیں؛ اور وہ جس صورت حال میں الجھے ہوئے ہیں، اُس پر اُنھیں تشویش ہے۔ میرے خیال، ایک دوسرے کو تسلیم کرنے اور اپنے حقوق اور کردار کے بارے میں دونوں برادریوں کے اندر حیران کُن حد تک لچک موجود ہے‘۔
روہنگیا کو میانمار میں نسلی گروپ تسلیم نہیں کیا جاتا۔۔۔۔ اس لیے روہنگیا کو کوئی شہریت حاصل نہیں۔ ملک کے حالیہ انتخابات میں اُنھیں ووٹ دینے کی اجازت نہیں تھی۔ پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے، یو این ایچ سی آر کے اندازوں کے مطابق، ریخائین کے 800000 سے زائد افراد شہریت سے محروم ہیں۔
میانمار کی مرکزی حکومت اور ریخائین کی بودھ برادریاں اُن کے لیے ’روہنگیا‘ کا نام استعمال کرنے کی مخالف ہیں۔ یہ اسطلاح متنازع ہے جو شمالی ریخائین کے قصبہ جات میں رہنے والے اِن 13 لاکھ مسلمانوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
تاہم، لی کا کہنا ہے کہ مسلمان برادری کے یہ افراد اب بھی اپنے آپ کو روہنگیا سجھتے ہیں، تاکہ اُنھیں ایک باضابطہ پہچان مل سکے، جب کہ متعدد افراد لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن، وہ اپنے لیے ’بنگالی‘ ہونے کی اسطلاح کے استعمال کے خلاف ہیں، جو سرکاری سطح پر استعمال کی جاتی ہے۔
شہریت کا مسئلہ
لی کے مطابق، ہو یہ رہا ہے کہ اس بات پر اختلاف رائے ہے کہ روہنگیا کا نام افراد یا گروہ کے لیے استعمال کیا جائے۔
لیکن، جب مسلمانوں سے سوال کیا جاتا ہے آیا روہنگیا کے نام سے کیا مراد ہے، جس سے شناخت ظاہر ہوتی ہو۔۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے حقوق دیے جائیں، ہمیں شہریت دی جائے۔ ہم میانمار کا حصہ بننا چاہتے ہیں؛ ہم کئی نسلوں سے یہاں آباد ہیں، ہمارا ایک ورثہ ہے، جو سینکڑوں برسوں پر محیط ہے۔
شہریت کے معاملے کے علاوہ، تحقیق کار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بودھوں اور مسلمانوں کے اندر ملتے جلتے خیالات بھی ہیں۔
لیکن، معاشرے کے طبقے کو مشکلات درپیش ہیں کیونکہ تشدد کا ماحول ہے، اور ساتھ ہی ملک کی سیاسی سطح پر نئے ماحول میں بیرونی سرمایہ کاری اور تیز معاشی سرگرمیوں کے نتیجے میں میانمار کی وسیع تر معیشت کو فروغ ملا ہے۔
لی کا کہنا ہے کہ معاشرے کے دونوں طبقوں میں یہ سوچ جنم لے رہی ہے کہ میانمار کی معاشی بحالی کے اس دور پر ریخائین کو پیچھے رکھا جا رہا ہے، جس کا ایک سبب یہ ہے کہ سرمایہ کار خطے کے عدم استحکام کی بنا پر شاکی نظر آتے ہیں۔