رسائی کے لنکس

میانمار کی فوجی کونسل نے یوکرین پر روسی حملے کی حمایت کر دی


کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہون سان میانمار کی ریاست کی انتظامی کونسل کے سربراہ، سینئر جنرل من آنگ ہینگ (بائیں جانب) سے ہاتھ ملاتے ہوئے۔ 7 جنوری، 2022ء (فائل فوٹو)
کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہون سان میانمار کی ریاست کی انتظامی کونسل کے سربراہ، سینئر جنرل من آنگ ہینگ (بائیں جانب) سے ہاتھ ملاتے ہوئے۔ 7 جنوری، 2022ء (فائل فوٹو)

میانمار کی ملٹری نے جمعرات کو یوکرین پر روس کے حملے کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئےعالمی برادری کے دھارے سے یکسر مختلف موقف اپنایا ہے۔ عالمی برادری نے یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کی نہ صرف مذمت کی ہے ، بلکہ ماسکو کے خلاف سخت پابندیاں عائد کرنے کا اقدام کیا ہے۔

وائس آف امریکہ کی برمی سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے، میانمار کی فوجی کونسل کے ترجمان جنرل زا من تن نے فوجی حکومت کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی حمایت کے اقدام کی وجوہ بیان کی ہیں۔

بقول ان کے، ''اول یہ کہ روس نے میانمار کی خودمختاری کو مستحکم کرنے میں مدد دی ہے، اسی لیے،میرے خیال میں ہمارے لیے یہی اقدام درست ہے۔ دوئم یہ کہ دنیا کو بتایا جائے کہ روس ایک عالمی طاقت ہے''۔

فوجی انقلاب کے سربراہ من آنگ ہلینگ نے گزشتہ سال جون میں روس کا دورہ کیا تھا، اور تب سے برما اور روس کی فوج کے مابین مضبوط مراسم قائم ہیں۔ روس اُن چند ملکوں میں سے ایک ہے جس نے یکم فروری 2021ء کے انقلاب کے بعد برما کی ملٹری کونسل کی حمایت کی تھی، اس بغاوت میں ایک سویلین حکومت کا تختہ الٹ کر جمہوریت پسند راہنما آنگ سان سوچی اور دیگر اعلیٰ عہدے داروں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

تب سے، اقوام متحدہ اور برما کے امور پر نظر رکھنے والے ماہرین، ملٹری کونسل کو اسلحہ فروخت کرنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ تاہم روس اس مطالبے کو نظرانداز کرتار ہا ہے۔

فروری کے اس فوجی انقلاب کا جواز پیش کرتے ہوئے ملٹری حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ نومبر 2020ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی تھی جس میں سوچی کی 'نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی' کو بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ بین الاقوامی اور مقامی انتخابی مبصرین نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ 2020ء کے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ تھے، ماسوائے معمولی کمی بیشی کے۔

فوج کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جب سوچی کو حراست میں لیا گیا اور ان پر متعدد الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن کا وہ سامنا کررہی ہیں۔ غیرقانونی طور پر واکی ٹاکیز رکھنے اور کرونا وائرس کی پابندیوں کی خلاف ورزی کے الزامات پر پہلے ہی انہیں چھ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

آنگ سان سوچی پر یہ بھی الزام ہے کہ انھوں نے سرکاری رازداری کے قانون کی خلاف ورزی کی کوشش کی ہے، اس الزام پر 14 برس کی سزا ہوسکتی ہے۔

فوجی بغاوت کا ایک سال پورا ہونے پر امریکہ نے فوجی کونسل سے وابستہ افراد اور اکائیوں کے خلاف مزید پابندیاں نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے، جن میں یونین کے اٹارنی جنرل تھیڈو و؛ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس تن تن دو اور انسداد بدعنوانی کمیشن کے سربراہ، تن او شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG