افغانستان سے ملحقہ شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں امن و امان کی صورت حال بدستور کشیدہ ہے اور شنہ کوٹ سے لے کر خڑکمر تک کرفیو ہفتے کو اکیسویں روز بھی جاری رہا۔
مسلسل کرفیو کے نفاذ سے نہ صرف ہزاروں کی تعداد میں لوگ گھروں تک محصور ہو کر رہ گئے ہیں، بلکہ ان علاقوں میں اشیائے خوردنی، بشمول پینے کے پانی، کی شدید قلت کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق، شنہ خوڑ کے علاقے میں کرفیو کے مسلسل نفاذ کے نتیجے میں ایک گھر میں تین کم سن بچوں کی ہلاکت واقع ہوئی ہے۔
حکام نے تحصیل دتہ خیل میں کرفیو کے نفاذ اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں کسی قسم کا کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تاہم، صوبائی حکام اور وزیر اطلاعات شوکت علی یوسف زئی کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان کے بعض علاقوں میں دہشت گرد ابھی تک موجود ہیں اور انکے خلاف سیکورٹی فورسز کی کارروائیاں جاری ہیں اور کرفیو نافذ ہے۔
انھوں نے کہا کہ حالات کو معمول پر لانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس سلسلے میں مقامی قبائلی عمائدین کے ساتھ جرگہ ممبران کے ذریعے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔
ادھر، شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مشیران پر مشتمل جرگہ نے ہفتے کے روز بنوں پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علاقے کے حالات کو ’’انتہائی تشویش ناک‘‘ قرار دیا اور حکومت سے فوری طور پر کرفیو اٹھانے اور علاقے کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
قبائلی رہنماؤں کے علاوہ قوم پرست جماعت، عوامی نیشنل پارٹی کے ہفتے کے روز ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں بھی شمالی وزیرستان کی کشیدہ صورتحال پر سخت افسوس کا اظہار کیا گیا؛ اور حکومت سے حالات کو معمول پر لانے کا مطالبہ کیا گیا۔