کراچی میں نگلیریا پھیلنے سے مزید 2قیمتی جانیں ضائع ہوگئی ہیں۔ نگلیریا کے دو مریض جو پچھلے کئی دنوں سے مختلف اسپتالوں میں زیر علاج تھے، جمعرات کو زندگی کی بازی ہار گئے۔
ان اموات کے ساتھ ہی رواں سال نگلیریا سے مرنے والے افراد کی مجموعی تعداد 5 ہوگئی ہے۔ کراچی میں سال 2012ء میں بھی یہ مرض 10 انسانی جانوں کو اپنا شکار بنا چکا ہے۔
جمعرات کو مرنے والے افراد میں سے ایک کا نام عرفان خان اور دوسرے کا ارباب خان بتایا جاتا ہے۔
ارباب خان کا تعلق حیدرآباد سے تھا۔ لیکن، وہ کراچی میں زیرعلاج تھا جبکہ عرفان خان کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا کا رہائشی بتایا جاتا ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے مائیکروبائیلوجسٹ ڈاکٹر عقیل احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جون سے اگست تک کے مہینوں میں یہ مرض تیزی سے پھیلتا ہے۔ اس سے بچنے کا پہلا کارگر نسخہ یہ ہے کہ پانی میں پہلے سے طے شدہ بین الاقوامی معیار کے مطابق کلورین ڈالی جائے۔
نگلیریا پھیلنے کا اصل سبب پانی ہی ہے۔ کھلی جگہہوں مثلاً تالاب، جھیل، سوئمنگ پول اور واٹر ٹینکس میں موجود پانی میں ایک قسم کا امیبا پرورش پا جاتا ہے جو انسانی جسم میں ناک کے ذریعے داخل ہوکر دماغ میں اپنا گھر بنالیتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خاص طور سے وضو کرتے وقت احتیاط برتنی جاہئے، کھلی جگہوں پر موجود پانی میں نہانا یا تیرنا بھی خطرناک ہوسکتا ہے، جبکہ عام طور پر بھی ٹھنڈا پانی استعمال کیا جائے کیوں کہ گرم پانی اس مرض کی افزائش کے لئے ’مثالی‘ ثابت ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر کسی شخص کو سر میں تیز درد محسوس ہو، الٹیاں یا متلی آنے لگے، گردن اکڑ جائے یا جسم میں جھٹکے لگنا شروع ہوجائیں تو ایسی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے کیوں کہ یہ ساری نگلیریا کی علامات ہیں۔